کرغستان میں باغیوں کی طرف سے اپریل کے مہینے میں حکومت کو گرانے کے دو مہینے کے بعد پھر سے اختلافات نے جنم لیا۔ ہم اللہ سے رحمت کی دعا کرتے ہیں اپنے ان بھائیوں کے لیے جنکی جانے اس واقع میں ضائع ہوئیں اور زخمیوں کی جلد از جلد صحت یابی کے لیے۔ ہم یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ کرغستا ن میں ہزاروں کی تعداد میں خیموں میں٘ پناہ گزین کے حالات جلد از جلد بہتر ہو جائیں اور وہ آرام سے گھروں کو لوٹ جائیں۔ اختالافات کو ختم کرنے کے لیے اور کرغستان میں صورت حال کو قابو پانے کے لیے ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں، سب سے پہلے ترکی ، کہ عالمی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اس معاملے میں مداخلت کرے اور فوری طور پر وہاں پر انسانیت کو درپیش ضرورتوں کی امدا د پہنچائے۔
اس شدید واقع کے دوران، سرکاری اطلاع کے مطابق، تقریبا ۱۷۰ لوگوں کی جانوں کا نقصان ہوا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے اور ہزاروں کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا، جو کہ ایک دفعہ پھر ترکش اسلامک یونین کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ یہ واقع روس کے ٹوٹنے کے بعد سے ہونے والے ابتک کا سب سے سخت واقع ہے جو کہ دونوں جانب سے چند نقاب پوشوں کی ایک دوسرے پر فائرنگ کے بعد شروع ہوا۔ اوش اور پڑوسی شہر جلال آباد جسمیں زیادہ تر آبادی ازبک کی ہے، سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چند مسلح افراد جنمیں کچھ پیشہ ور چھپ کر گولی چلانے والے بھی شامل تھے، عام شہریوں پر گولیاں چلائیں، ازبک کے گھروں کو اور کام کی جگہوں کو آگ لگائی اور بہت سی جگہوں میں لوٹ مار کی۔ مرنے والوں کی تعداد عارضی حکومت کی بتائی ہوئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ زخمیوں اور مرنے والوں کے علاوہ، ہزاروں کی تعدا د میں لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ازبکستان میں پناہ لے نی پڑی اور وہ بہت ہی مشکل حالات سے دو چار ہیں۔
کرغستان میں ہونے والے ان واقعات کے پیچھے کیا وجہ ہے، اس بارے میں مختلف تبصرے سامنے آئے ہیں۔ ہر کوئی مختلف زاویوں سے حالات کو دیکھتا ہے اور ہر کسی کی مختلف رائے ہے۔ چاہے وجہ کوئی بھی ہوئی ہو، ان نامعقول واقعات کو روکنے کے لیے جو کہ بھائی کو بھائی کے خلاف کر رہے ہیں اور علاقے میں پائے جانے والے اس جیسے دوسرے فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے ایک مضبوط اتحادکے قیام کی سخت ضرورت ہے جو تمام ترکش اسلامک دنیا کو ایک چھتری کے نیچے جمع کرے۔ یہ ثابت ہے کہ جب ترکش اسلامک یونین کا قیام ہوگا تو کوئی ایک دوسرے سے لڑنے کی جراءت نہیں کریگا۔
جیسے ہی ترکش اسلامک یونین کا قیام ہوگا، تمام اختلافات امن و امان کے ساتھ حل کر لیے جائیں گے، اور ہر گروہ اس منصفانہ فیصلے سے رضا مندی ظاہر کریگا۔ ترکش اسلامک یونین کی موجودگی میں، کوئی ایک دوسرے کے قریب نفرت اور بغض سے نہیں جائیگا اور ہر ایک کے حقوق کی بہترین طریقے سے حفاظت کی جائیگی۔ ایسا نظام قائم کیا جائیگا جو اس خطہ کے ہر انچ میں حفاظت اور امن لائیگا۔
عظیم ترکش اسلامک دنیا کا بڑھتا ہوا جغرافیائی پھیلاو جو کہ ایڈریاٹک سے چین تک، چاڈ سے انڈونیشیا تک، جسمیں بہت سے مختلف زبان بولنے والے علاقے اور ٘مختلف تہذیبیں اور ثقافتیں پائی جاتی ہیں۔ البتہ یہ تمام علاقے صرف ایک اللہ پر یقین رکھتے ہیں، نبی صل اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو اپنانے والے، ایک قبلہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ موڑنے والے اور نمازوں کی پابندی کرنے والے اور ایک کتاب پر عمل کرنے والے ہیں۔ اللہ کے حکم کے مطابق جیسا کہ قرآن میں ہے، یہ سب بھائی بھائی ہیں۔ چناچہ انکے درمیان تعلقات گرم جوش اور صاف گو ہونے چاہیئں جیسا کہ دو بھا ئیوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ ترکش اسلامک یونین قرآن کے اس حکم کو اسکی صحیح حقیقت کے ساتھ بجا لانے میں بہت مدد گار ہوگی اور اس بات کی ضمانت دے گی کہ مسلمان ایک دوسرے کو بھائیوں کی طرح محبت کریں، ایک دوسرے کی مدد اور حفاظت کریں۔ ترکش اسلامک یونین کے قیام کے بعد، اختلافات کہ بارے میں جیسا کہ کرغستان میں ہوا صرف سوچنا بھی نا ممکن ہوگا۔
جب تک کہ ترکش اسلامک یونین کا قیام نہیں ہوتا اور ترکش اسلامک دنیا بھائیوں کی طرح ایک روحانی قیادت کے گرد متحد نہیں ہوتی، نہ اندورنی اختلافات اور نہ باہر سے مسلمان ممالک پر ہونے والے حملے ختم ہونگے۔اس وقت اگر مسلمان اپنے بھائیوں کا قتل اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے، اگر وہ ایسٹ ترکمانستان میں ہونے والے معصوم یوشر لوگوں پر ہونے والے ظلم پر آنکھیں بند کرنا نہیں چاہتے، اگر وہ عراق، افغانستان اور فلسطین میں ہونے والے خون خرابہ کو روکنا چاہتے ہیں، اور اسلامی دنیا کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، تو انکو چاہیے کہ اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ فوری طور پر ترکش اسلامک یونین کے قیام کے لیے جدو جہد کریں۔ ترکش اسلامک دنیا کا اتحاد جو کہ مضبوط تعمیر ہوئی دیوار کی طرح ہوگا، دنیا میں امن اور سلامتی کے لیے بہت مددگار ہوگا۔
کسی کو ایسا غلط نہیں سوچنا چاہیئے کہ "میری کوشش کیا تبدیلی لا سکتی ہے؟" بلکہ جہاں کہیں بھی وہ ہوں ترکش اسلامک یونین کے قیام کی اہمیت پر زور دینا چاہئیے اور اسکے لیے مخلصانہ خواہش کرنی چاہئیے۔ قرآن کے مطابق سب سے زیادہ معقول اور باضمیر رویہ یہ کہنا ہوگا کہ ظلم کے خلاف "بس" ترکش اسلامک یونین کا قیام ہے۔ جب اللہ نے مختلف حالات اور واقعات کے ساتھ اس روحانی اتحاد کی اہمیت کی طرف توجہ دلادی ہے تو کسی مسلمان کو ایسا عمل نہیں کرنا چاہئیے کہ یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور اسکو اہمیت نہ دی جائے۔ جب یہ موقع موجود ہے کہ مظلوم کے حق کی حفاظت کی جا سکے تو جو ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں تو وہ اس ظلم میں برابر کے شریک ہیں۔ یقینا انکے لیے اللہ کو جواب دینا نا ممکن ہوگا۔