یہاں تک کہ جب آپ کچھ لمحوں کے لیے ایک قلم کو اپنے ہاتھ میں دیکھتے ہیں کروڑوں اربوں قسم کے مختلف عمل آنکھ میں وقوع پذیر ہوتےہیں۔ روشنی قرنیہ اور پیوپل سے گزرتی ہے اور عدسہ تک پہنچتی ہے جہاں پر روشنی کے حساس خلیے اسے برقی حراروں میں تبدیل کرتے ہیں اور اعصابی نظام تک انکی ترسیل ہوتی ہے۔ پردہ چشم تک پہنچنے والی تصویر بلکل الٹی اور اوندھی ہو جاتی ہے تاہم دماغ اسے سمجھ سکتا ہے ، دونوں آنکھوں سے علیحدہ علیحدو تصویروں کو جمع کرکے، اس شے کے نقوش کی شناخت کرکے اور دونوں آنکھوں سے لی گئی تصاویر کو ملا کر ایک تصویر بناتا ہےاور ایک بلکل ٹھیک حالت میں تصویر کو پیش کرتا ہے ۔یہ اس شے کی ساخت، رنگ اور فاصلے کا بھی تعین کرتا ہے۔ آنکھیں یہ سب ایک سیکنڈ کے دسویں حصہ میں کرتی ہیں۔
ایسا ہی عمل دماغ میں بھی ہوتا ہے چاہے آپ کوئی چھوٹا سا نقطہ دیکھیں یا ایک بڑا جہاز دیکھیں نتیجتا بننے والی تصویر صرف ایک ملی میٹر کے حصہ میں ہوتی ہے۔ آپ کبھی بھی اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ آپ کے ہاتھ میں موجود قلم آپ سے کتنا قریب ہے یا ایک دور کھڑا پانی کا جہاز ایک پینسل سے بڑا ہے کیونکہ دماغ کے جس حصہ میں یہ تصاویر بنتی ہیں اسکا رقبہ سب کے لیے برابر ہے۔ تاہم جس چیز کو بھی آپ دیکھتے ہیں وہاں ایک فاصلہ کو محسوس کرنے کی حس موجود ہے ورنہ آپ کسطرح آسانی کے ساتھ ہاتھ بڑھا کر گلاس کو اٹھائینگے؟ اللہ جس نے یہ بے عیب عضو تخلیق کیا ہے، اسے ایک ناقبل تصور لطیف جزئیات سے آراستہ کیا ہے اور دماغ کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ کسی چیز کو دیکھ سکے جہاں وہ ہے اسکی مکمل تفصیلات کے ساتھ۔ غیر معمولی پیچدہ انسانی آنکھ بھی اس ذات پاک کے عظیم کاموں میں سے صرف ایک عمل ہے۔
کوئی انسانی صنعت یہ کارنامہ نہیں پیدا کرسکتی۔ یہ سمجھنے کے لیے مستقل تحقیق ہورہی ہے کہ کسطر آنکھ یہ حیرت انگیز کام انجام دے سکتی ہے اور سائینسدان یہ معلوم کرنے کی جدوجہد میں ہیں کہ کس طر ح یہ ہمیں رنگین دنیا کا نظارہ کراتی ہیں۔ بے شک نا تو آنکھیں، جو کہ رقبہ میں کچھ سینٹی میٹر کے برابر ہیں اور نہ ہی دماغ کا وہ ملی میٹر سائیز کا حصہ جہاں تصویر بنتی ہے، یہ رنگین دنیا بنانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ روح ہے جو باہر پائی جانے والی اشیاء کو دیکھتی ہے اور دماغ کے اندر اسکوواضح کرتی ہے۔ اللہ جو قادر مطلق ہے انسان کی پیدائیش کے وقت اپنی روح پھونک کر ، اس نے لوگوں کو دیکھنے کے، ادارک کرنے اور محسوس کرنے کے قابل بنایا اور چیزوں کو انسان کے لیے مسخّر کردیا۔ تصوریر جو بنتی ہے اور حیرت انگیز آنکھیں جو اسکا ادراک کرتی ہیں اور ان گنت نظام جو اس تمام کام میں شامل ہے صرف اس لیے کہ اللہ نے ایسا چاہا۔