ترکی کے معروف اسکالر جناب ہارون یحییٰ کا نام اب قارئینِ گلوبل سائنس کے لئے نیا نہیں رہا۔ ان کا ایک طویل مضمون، جو قومِ لوطؑ کی تباہی کے بارے میں تھا، جون 2000ء کے شمارے میں شامل اشاعت ہوا۔ علاوہ ازیں گزشتہ ایک سال کے عرصے میں ان کے مضامین کے تراجم ’’اِک نسخۂ کیمیا‘‘ میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔
جناب ہارون یحییٰ نے یوں تو اسلام اور عصری علوم کے حوالے سے بہت سا تحقیقی کام کیا ہے لیکن اس کا ایک اچھا حصہ ڈار وِن کے نظریہ ارتقاء کو سائنسی دلائل اور مشاہداتی حقائق کی بنیاد پر باطل ثابت کرتا ہے۔ ان کی مشہور کتاب Evolution Deceit(یعنی ارتقاء کا دھوکہ) کا موضوع بھی یہی نظریہ ارتقاء ہے جس میں انہوں نے ارتقاء کے میدان میں ہونے والی تحقیق ہی کے ذریعے نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کیا ہے اور اس نظرئیے میں فاش غلطیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
زیرِ نظر مضمون جناب ہارون یحییٰ کی ایک اور کتاب Allah is Known Through Reasonکا ایک طویل باب ہے جسے ان کی مذکورہ بالا کتاب کا خلاصہ سمجھنا چاہیے۔ صفحات کی کمی کے باعث ہم نے اس باب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جس کا آخری حصہ انشاء اللہ آئندہ شمارے (اگست2001ء) میں شائع کیا جائے گا۔ اس مضمون کی اشاعت کا مقصد ایک علمی و مذہبی فریضہ ادا کرنا، اور بالخصوص ان قارئین کے اعتراضات کا ازالہ بھی کرنا ہے جو ’’گلوبل سائنس‘‘ میں اس نوعیت کے تجزیاتی مضامین کم ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ مضمون انشاء اللہ نظریہ ارتقاء کے بارے میں معلومات بہم پہنچاتے ہوئے، قارئین کو اس کی کمزوریوں اور اسے بچانے کے لئے کی گئی شعبدہ بازیوں سے درست انداز میں آگاہ کرے گا۔
(ادارہ)
نظریہ ارتقاء ایک ایسی دنیا کا فلسفہ اور تصور ہے جو زندگی کی ابتداء اور وجود کو محض اتفاقات کی صورت میں بیان کرنے کے لئے جھوٹے نظریات، مفروضات اور خیالی منظر نامے پیش کرتی رہتی ہے۔ اس فلسفے کی جڑیں ماضی میں بہت گہری ہیں اور قدیم یونان میں جاکر نکلتی ہیں۔
وہ سارے لامذہب فلسفے جو تخلیق سے انکار کرتے ہیں، براہِ راست یا بالراست انداز میں ارتقاء کے تصور کی حمایت اور دفاع کرتے ہیں۔ کم و بیش یہی کیفیت ان تمام نظریات اور نظامات کی بھی ہے جو مذہب کے مخالف ہیں۔
ارتقاء کے تصور کو ڈیڑھ سو سال سے سائنسی نظریئے کے بھیس میں پیش کیا اور اس کی سائنسی حیثیت منوانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ اسے انیسویں صدی کے وسط میں سائنسی نظریئے کی حیثیت سے متعارف کروایا گیا لیکن، اپنے حمایتیوں کی تمام تر بہترین کوششوں کے باوجود، اس نظریئے کی تصدیق کسی سائنسی دریافت یا تجربے سے نہیں ہوسکی۔ درحقیقت وہ ’’سائنس‘‘ جس پر اس نظریئے کا پورا انحصار ہے، بذاتِ خود اس امر کی شہادت دے چکی ہے، اور اب بھی مسلسل ایسی ہی شہادتیں دے رہی ہے کہ نظریہ ارتقاء کا حقیقتاً کوئی سائنسی مقام نہیں ہے۔
تجربہ گاہ میں گئے گئے تجربات اور شماریاتی (Statistical) تخمینہ جات سے بھی یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ امائنو ایسڈز (Amino Acids) جن کی بنیاد پر زندگی کی عمارت کھڑی ہے ’’محض اتفاقاً‘‘ نہیں بنے تھے۔ خلیہ، جس کے بارے میں ارتقائی ماہرین (evolutionists) کا خیال ہے کہ یہ زمین کے کروڑوں اربوں سال قدیم، غیر متوازن اور بے قابو ماحول میں ’’اتفاقاً‘‘ ظہور پذیر ہوا، موجودہ دور کی جدید آلات اور سہولیات سے لیس تجربہ گاہوں تک میں تیار نہیں کیا جاسکا۔ اب تک ہم زندگی کی ایک بھی ’’انتقالی شکل‘‘ (Transitional Form) دریافت نہیں کرسکے۔ یہ ایک نوع (Species) سے دوسری نوع تک ارتقاء ہوتے دوران، کسی جاندار کی وہ درمیانی شکل ہے جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی سچائی کی صورت میں دریافت ہوجانا چاہیے تھا۔ مگر، برسہا برس کی جستجو اور رکازات (Fossils) کی صورت میں ایسے جانداروں کی باقیات کی تلاش جاری رہنے کے باوجود، ماہرین کو اب تک کہیں سے بھی ایسا کوئی سراغ نہیں مل پایا۔
ارتقاء کا مشاہداتی ثبوت تلاش کرتے دوران، ماہرینِ ارتقاء غیر شعوری طور پر خود یہ ثابت کر چکے ہیں کہ ارتقاء قطعی طور پر نہیں ہوا تھا!
نظریہ ارتقاء پیش کرنے والا شخص، خصوصاً اس شکل میں پیش کرنے والا کہ جس کا دفاع آج کل کیا جارہا ہے، برطانیہ کا ایک شوقیہ حیاتیات داں (Amateur Biologist)، چارلس رابرٹ ڈاروِن تھا۔ ڈاروِن نے اپنے یہ خیالات پہلی مرتبہ The Origin of Species by Means of Natural Selection(یعنی ’’فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور‘‘) نامی کتاب میں 1859 ء میں پیش کئے۔ اپنی اس کتاب میں ڈاروِن نے یہ دعویٰ کیا کہ تمام جانداروں کا ایک ہی مشترکہ جدِ امجد (Common ancestor) ہے، اور یہ کہ فطری انتخاب (نیچرل سلیکشن) کے ذریعے ایک سے دوسری انواع وجود میں آتی ہیں۔ وہ انواع جنہوں نے اپنے مسکن (habitat) سے بہترین مطابقت اختیار کی، انہوں نے اپنی یہ خصلتیں (Traitsیا امتیازی خصوصیات) آنے والی نسلوں کو منتقل کردیں۔ یہ عمل لاکھوں سال تک جاری رہا اور ہر آنے والی نسل میں یہ مفید خصوصیات جمع ہوتی رہیں (یعنی بڑھتی رہیں)۔ اس طرح سے ایک نوع کا جاندار تبدیل ہوتے ہوتے اپنے آباؤ اجداد سے کہیں زیادہ مختلف اور ترقی یافتہ شکل اختیار کر گیا۔ لہٰذا انسانی نسل بھی فطری انتخاب کے عملی نظام کی سب سے ترقی یافتہ پیداوار (product) ہے۔ مختصراً یہ کہ کسی بھی ایک نوع کی اصل (Origin) کوئی دوسری نوع تھی۔
ڈاروِن کے یہ خیالات بعض مخصوص نظریاتی اور سیاسی حلقوں کو بہت زیادہ پسند آئے، انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور نتیجتاً یہ خیالات (نظریہ ارتقاء) بہت زیادہ مقبول ہوگئے۔ اس مقبولیت کی اہم وجہ یہ رہی کہ اس زمانے میں علم کی سطح اتنی بلند نہیں تھی کہ ڈاروِن کے تصوراتی منظرنامے میں پوشیدہ جھوٹ کو سب کے سامنے عیاں کر سکتی۔ جب ڈارون نے ارتقاء کے حوالے سے اپنے مفروضات پیش کئے تو اس وقت جینیات (Genetics)، خرد حیاتیات (Microbiology) اور حیاتی کیمیا (Biochemistry) جیسے مضامین موجود ہی نہیں تھے۔ اگر یہ موضوعات، ڈاروِن کے زمانے میں موجود ہوتے تو یہ بہ آسانی یہ پتا چل جاتا کہ ڈاروِن کا نظریہ غیر سائنسی ہے اور اس کے دعوے بے مقصد ہیں۔ کسی نوع کا تعین کرنے والی ساری معلومات پہلے ہی سے اس کے جین (Genes) میں موجود ہوتی ہیں۔ فطری انتخاب کے ذریعے، جین میں تبدیلی کرکے کسی ایک نوع سے دوسری نوع پیدا کرنا قطعاً ناممکن ہے۔
جس وقت ڈاروِن کی مذکورہ بالا کتاب (جسے اب ہم مختصراً ’’اصلِ انواع‘‘ کہیں گے) اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اسی زمانے میں آسٹریا کے ایک ماہر نباتیات، گریگر مینڈل نے 1865ء میں توارث (Inheritence) کے قوانین دریافت کئے۔ اگرچہ ان مطالعات کو انیسویں صدی کے اختتام تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوسکی۔ مگر 1900ء کے عشرے میں حیاتیات کی نئی شاخ ’’جینیات‘‘ (Genetics) متعارف ہوئی اور مینڈل کی دریافت بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہوگئے۔ 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے ’’اتفاقی واقعات‘‘ کی مدد سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا۔
ان تمام سائنسی کاوشوں سے ہٹ کر، تلاشِ بسیار کے باوجود، جانداروں کی ایسی کسی درمیانی شکل کا سراغ نہیں مل سکا جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں لازماً موجود ہونا چاہیے تھا۔
اصولاً تو ان دریافتوں کی بنیاد پر ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بعض مخصوص حلقوں نے اس پر نظرِ ثانی، اس کے احیأ، اور اسے سائنسی پلیٹ فارم پر بلند مقام دیئے رکھنے کا اصرار (اور دباؤ) جاری رکھا۔ ان کوششوں کا مقصد صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم نظریہ ارتقاء کے پیدا کردہ نظریاتی رجحانات (IdeologicalIntensions) کو محسوس کریں، نہ کہ اس کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں۔ نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے۔ اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کردیا جس کا نام ’’جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism) رکھا گیا۔ اس نظریئے کے مطابق انواع کا ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے ہوا۔ مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے) صرف وہی انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں۔ مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں، اور یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں، تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
اب کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے ’’نشان زد توازن‘‘ (PunctuatedEqulibrium) کہا جاتا ہے، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہوگئے۔ باالفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباؤ اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آگئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو ’’تخلیق‘‘ کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے۔ لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کررہا ہے)۔ اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہوگیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہوکر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ہوں گے۔
یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہوجانے والی جادوئی کہانیوں میں ہوسکتی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔
اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا۔ مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا ’’رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا‘‘ بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ڈراوِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہوا یا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ تغیرات (تبدیلیوں) سے تو جینیاتی معلومات تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مجموعی تغیرات‘‘ (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نشان زد توازن‘‘ کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے تبدیل ہوئی تھیں)، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں۔ تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان ’’درمیانی (انتقالی) شکلوں‘‘ کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آسکی۔ حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہوچکے ہیں۔
ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی۔ آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ بطورِ خاص انہی نکات پر آکر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں۔
کیا نظریہ ارتقاء کی تصدیق میں رکازی ریکارڈ موجود ہے؟
نظریہ ارتقاء یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ایک نوع سے دوسری نوع میں ارتقاء پذیر ہونے کا عمل بتدریج، مرحلہ وار، اور لاکھوں سال کے عرصے میں ہوتا ہے۔ اس دعوے کا ایک منطقی نتیجہ ایسے عفریت نما جانداروں کی شکل میں سامنے آتا ہے جنہیں اصطلاحاً ’’انتقالی شکلیں‘‘ کہا جاتا ہے، اور جنہیں اس ارتقائی عرصے کے دوران موجود ہونا چاہیے۔ اب کیونکہ ارتقائی ماہرین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ تمام جاندار ایک دوسرے سے مرحلہ وار ارتقاء پذیر ہوئے ہیں، تو ایسی انتقالی (درمیانی شکلوں والے) جانداروں کی تعداد اور اقسام کو بھی لاکھوں کے پیمانے میں ہونا چاہیے۔
اگر ایسے جاندار واقعی موجود تھے تو ہمیں ان کی باقیات ہر جگہ ملنی چاہئیں۔ دراصل، اگر یہ نظریہ درست ہے، تو درمیانی (انتقالی) شکلوں کی تعداد، آج کل موجود جانداروں کی تعداد سے بھی کہیں زیادہ ہونی چاہیے تھی اور ان کی رکازی باقیات کو بھی ساری دنیا میں پھیلا ہونا چاہیے تھا۔
ڈاروِن کے زمانے سے ہی ارتقائی ماہرین (ارتقاء پرست) ان رکازوں کی تلاش میں ہیں لیکن سوائے اعصاب شکن ناکامی کے انہیں کچھ نہیں مل سکا۔ اب تک دنیا میں کہیں پر بھی، چاہے وہ خشکی ہو یا سمندر کی گہرائی، کوئی سی بھی دو انواع کے مابین، درمیانی انتقالی شکلیں دریافت نہیں ہوسکی ہیں۔
ڈاروِن ان درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی سے واقف تھا۔ یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ انہیں مستقبل میں دریافت کرلیا جائے۔ ان تمام امیدوں اور توقعات کے باوجود اس کے نزدیک انتقالی شکلوں کی عدم موجودگی ہی اس کے نظرئیے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ لہٰذا وہ ’’اصلِ انواع‘‘ میں لکھتا ہے:
’’اگر انواع، درجہ بدرجہ تغیرات کے ذریعے دوسری انواع میں تبدیل ہوئیں تو ہمیں ہر جگہ لاتعداد انتقالی شکلیں کیوں نظر نہیں آتیں؟ آخر فطرت میں کوئی بے قاعدگی اور بدنظمی کیوں نہیں ہے؟ اور اس کے بجائے ہمیں انواع اتنی منضبط اور مربوط کیوں دکھائی دیتی ہیں؟۔۔۔ لیکن اس نظریئے کے مطابق زندگی کی لاتعداد درمیانی شکلیں موجود رہی ہوں گی۔ مگر ہم اب تک ایسی درمیانی، اور دو انواع کا آپس میں ربط جوڑنے والی اقسام دریافت کیوں نہیں کر پائے؟ اسی مشکل نے مجھے لمبے عرصے سے پریشان کیا ہوا ہے۔‘‘
ڈاروِن کی پریشانی بجا تھی۔ اسی مسئلے نے دیگر ارتقائی ماہرین کو بھی پریشان کیا۔ مشہور برطانوی ماہرِ معدومیات، ڈیرک وی ایگر نے اس خجالت آمیز حقیقت کو قبول کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم رکازات کے ریکارڈ کا تفصیلی مطالعہ کریں، خواہ و تنظیم و ترتیب کی سطح پر ہو یا انواع کا ہو، تو ہمیں بار بار یہی پتا چلتا ہے کہ تدریجی ارتقاء نہیں ہوا تھا بلکہ ایک گروہ کے اختتام پر اچانک ہی دوسرا گروہ کسی دھماکے کی طرح سامنے آجاتا ہے‘‘۔
رکازی ریکارڈ میں موجود خلاء(Gap) کی وضاحت کسی بھی طرح سے اس خواہش مندانہ سوچ کے تحت نہیں کی جاسکتی کہ اب تک ناکافی رکازات ہی دریافت ہوسکے ہیں، اور یہ کہ گمشدہ رکاز کسی دن یقیناً دریافت ہوجائیں گے۔ ایک اور ارتقائی ماہر معدومیات، ٹی نیول جارج کی رائے ہے:
’’اب رکازی ریکارڈ کی غربت (قلت) پر معذرت کی چنداں ضرورت نہیں ۔ بعض اعتبار سے یہ بہت زیادہ پھیل چکا ہے اور دریافتوں کو مربوط کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔۔۔ اس کے باوجود رکازی ریکارڈ کا بیشتر حصہ خالی جگہوں پر ہی مشتمل رہے گا‘‘۔
زمین پر زندگی، اچانک اور پیچیدہ شکلوں میں ظہور پذیر ہوئی:
جب زمینی پرتوں اور رکازی ریکارڈ کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ جاندار ایک ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ زمین کی وہ قدیم ترین پرت، جس سے جاندار مخلوقات کے رکاز دریافت ہوئے ہیں، وہ ’’کیمبری‘‘ (Cambrian) ہے جس کی عمر 52 سے 53 کروڑ سال ہے۔
کیمبری عصر (Cambrain Period) کی پرتوں سے ملنے والے جانداروں کے رکازات پہلے سے کسی بھی جدِ امجد کی غیر موجودگی میں، اچانک ہی متعدد انواع کے ظاہر ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ پیچیدہ مخلوقات سے تشکیل پایا ہوا یہ وسیع و عریض اور خوبصورت منظر نامہ اتنی تیزی سے، اور اتنے معجزانہ انداز میں ابھرتا ہے کہ سائنسی اصطلاح میں سے ’’کیمبری دھماکہ‘‘ (Cambrian Explosion) کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس پرت سے دریافت ہونے والے بیشتر جانداروں میں بہت ترقی یافتہ اور پیچیدہ اعضاء مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظام دورانِ خون وغیرہ موجود تھے۔ رکازی ریکارڈ میں ایسی کوئی علامت نہیں جو یہ بتا سکے کہ ان جانداروں کے بھی آباؤ اجداد تھے۔ EarthSciencesنامی جریدے کے مدیر رچرڈ مونسٹارسکی، جاندار انواع کے اس طرح اچانک ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’نصف ارب سال پہلے نمایاں طور پر پیچیدہ ساخت والے جانور، جیسے کہ ہم آج دیکھتے ہیں، اچانک ظاہر ہوگئے۔ یہ موقع یعنی زمین پر کیمبری عصر کا آغاز (تقریباً 55 کروڑ سال پہلے)، ایک ایسے ارتقائی دھماکے کی مانند ہے جس نے زمین کے سمندروں کو اوّلین پیچیدہ جانداروں سے بھر دیا تھا۔ جانداروں کے وسیع فائلم (Phyla) ، جن کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں، ابتدائی کیمبری عصر میں بھی موجود تھے اور ایک دوسرے سے اتنے ہی جداگانہ اور ممتاز تھے جتنے کہ آج ہیں ‘‘۔
زمین اچانک ہی ہزاروں مختلف جانوروں کی انواع سے کس طرح لبریز ہوگئی تھی؟ جب اس سوال کا جواب نہیں مل سکا تو ارتقائی ماہرین، کیمبری عصر سے قبل 2 کروڑ سال پر محیط ایک تخیلاتی عصر پیش کرنے لگے جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کسی طرح سے زندگی ارتقاء پذیر ہوئی اور یہ کہ ’’کچھ نامعلوم واقعہ ہوگیا‘‘۔ یہ عصر (period) ’’ارتقائی خلاء‘‘ (Evolutionary Gap) کہلاتا ہے۔ اس دوران میں حقیقتاً کیا ہوا تھا؟ اس بارے میں بھی اب تک کوئی شہادت نہیں مل سکی ہے اور یہ تصور بھی نمایاں طور سے مبہم اور غیر واضح ہے۔
1984 ء میں جنوب مغربی چین میں چنگ ژیانگ کے مقام پر وسطی ینان کی سطح مرتفع سے متعدد پیچیدہ غیر فقاری جانداروں (Invertebrates) کے رکازات برآمد ہوئے۔ ان میں ٹرائلوبائٹس (Trilobites) بھی تھے، جو اگرچہ آج معدوم ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی ساخت کی پیچیدگی کے معاملے میں کسی بھی طرح سے جدید غیر فقاریوں سے کم نہیں تھے۔
سویڈن کے ارتقائی ماہر معدومیات (Evolutionary Paleontologist) اسٹیفن بنگسٹن نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
’’اگر زندگی کی تاریخ میں کوئی واقعہ، انسانی تخلیق کی دیو مالا سے مماثلت رکھتا ہے، تو وہ سمندری حیات کی یہی اچانک تنوع پذیری (diversification) ہے جب کثیر خلوی جاندار؛ ماحولیات (ecology) اور ارتقاء میں مرکزی اداکار کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ڈاروِن سے اختلاف کرتے ہوئے اس واقعے نے اب تک ہمیں پریشان (اور شرمندہ) کیا ہوا ہے‘‘۔
ان پیچیدہ جانداروں کا اچانک اور آباؤاجداد کے بغیر وجود میں آجانا واقعتا آج کے ارتقاء پرستوں کے لئے اتنی ہی پریشانی (اور شرمندگی) کا باعث ہے، جتنا ڈیڑھ سو سال پہلے ڈاروِن کے لئے تھا۔
رکازی ریکارڈ کی شہادتوں میں یہ امر بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جاندار اجسام کسی ابتدائی شکل سے ترقی یافتہ حالت میں ارتقاء پذیر نہیں ہوئے بلکہ اچانک ہی ایک مکمل حالت کے ساتھ زمین پر نمودار ہوگئے۔ درمیانی (انتقالی) شکلوں کی عدم موجودگی صرف کیمبری عصر تک ہی محدود نہیں۔ فقاریوں (ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں) کے مبینہ تدریجی ارتقاء کے ثبوت میں بھی آج تک اس طرح کی کوئی درمیانی شکل دریافت نہیں کی جاسکی۔ چاہے وہ مچھلی ہو، جل تھلئے (amphibians) ہوں، ہوّام ہوں، پرندے ہوں یا ممالیہ ہوں۔ رکازی ریکارڈ کے اعتبار سے بھی ہر جاندار نوع کا اچانک اپنی موجودہ، پیچیدہ اور مکمل حالت میں آنا ہی ثابت ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جاندار انواع، ارتقاء کے ذریعے وجود میں نہیں آئیں۔۔۔ انہیں تخلیق کیا گیا ہے۔
ارتقاء کی جعلسازیاں
تصویروں کے دھوکے:
نظریہ ارتقاء کی صداقت جانچنے کا اہم ترین ماخذ، رکازی ریکارڈ ہے۔ جب اس کا محتاط اور غیر متعصبانہ تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ ریکارڈ ارتقاء کی حمایت کرنے کے بجائے اسے ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ اس کے باوجود، ارتقاء پرستوں نے رکازوں کی گمراہ کن توجیحات دے کر، اور اپنی طرف سے من پسند وضاحتیں پیش کرکے عوام کی بھاری اکثریت کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے کہ یہ ریکارڈ، ارتقاء کی تائید کرتا ہے۔
چند مشکوک رکازات کی بنیاد پر ایسی توجیحات گھڑلی جاتی ہیں جن سے ارتقاء پرستوں کا مقصد حل ہوجائے۔ بیشتر اوقات میں دریافت ہونے والے رکازات موزوں طور پر شناخت کے قابل نہیں ہوتے۔ یہ عموماً ہڈیوں کے بکھرے ہوئے اور نامکمل ٹکڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے دستیاب ہونے والی معلومات کو مسخ کرنا اور اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ارتقاء پرست انہی ادھوری رکازی باقیات کی بنیاد پر تصویروں اور ماڈلوں کی شکل میں ’’تنظیم نو‘ ‘(Reconstructions) کے نام پر جو کچھ پیش کرتے ہیں، وہ ارتقاء کی تصدیق کرنے والا محض ایک تخیل ہوتا ہے۔ اب کیونکہ بصری معلومات لوگوں کو زیادہ متاثر کرتی ہیں، لہٰذا تخیل پر قائم کئے گئے یہ ماڈلز انہیں بہ آسانی قائل کر لیتے ہیں کہ ارتقاء پرستوں کے بتائے ہوئے عجیب و غریب جاندار، ماضی میں واقعی موجود تھے۔
ارتقائی محققین تو یہ تک کرتے ہیں کہ صرف ایک دانت، جبڑے یا بازو کی ہڈی دیکھ کر انسان جیسے کسی تصوراتی جانور کی پوری تصویر بنا ڈالتے ہیں۔ اور پھر، اسے اس سنسنی خیز انداز سے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں جیسے وہ انسانی ارتقاء کو ثابت کرنے والی کڑیاں ہوں۔ انہی تصویروں نے کئی لوگوں کے ذہنوں میں ’’(بندر نما) قدیم انسان‘‘ کا عکس قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
بچی کچھی ہڈیوں کی بنیاد پر کئے گئے یہ مطالعات کسی متعلقہ جاندار کی صرف عمومی خصوصیات کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ حالانکہ اہم ترین معلومات اور تفصیلات تو نرم بافتوں (یعنی چربی اور گوشت وغیرہ) میں ہوتی ہیں جو بہت جلد مٹی میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ نرم بافتوں کی فرضی وضاحت کے ساتھ ہی ’’تنظیم نو‘‘ کرنے والا ارتقاء پرست ہر اس چیز کو ممکن بنا دیتا ہے جو اس کے تخیل میں سما سکتی ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے ارنسٹ اے ہوٹن اسی طرح کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’نرم حصوں کو بحال کرنے کی کوشش کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ہونٹ، آنکھیں، کان اور ناک کی نوک جیسے حصے اپنے نیچے موجود ہڈی پر کوئی سراغ نہیں چھوڑتے۔ لہٰذا آپ نینڈرتھل نما (Neanderthaloid) جانور کی کھوپڑی پر یکساں سہولت کے ساتھ کسی چمپانزی کے خدوخال یا ایک فلسفی کے نقش و نگار تشکیل دے سکتے ہیں۔ قدیم اقسام کے آدمی کی ایسی مبینہ تنظیم نو کی اگر کوئی سائنسی قدر و قیمت ہے، تو وہ بے حد معمولی ہے اور ممکنہ طور پر صرف عوام کو گمراہ کرنے کا باعث ہے۔۔۔ لہٰذا تنظیم نو پر بھروسہ نہ کیجئے‘‘۔
جھوٹے رکازات بنانے کے لئے کئے گئے ’’مطالعات‘‘ :
حقیقت میں ارتقاء کا ثبوت فراہم کرنے والے رکازوں کی عدم دستیابی کے بعد، بعض ارتقاء پرست ماہرین نے اپنے ’’ذاتی رکازات‘‘ بنانے کی کوششیں بھی کر ڈالیں۔ یہ کوششیں جنہیں انسائیکلوپیڈیا بھی ’’ارتقاء کی جعلسازیوں‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہیں، اس امر کی واضح شہادت دیتی ہیں کہ نظریہ ارتقاء ایک ایسا نظریاتی ڈھانچہ اور فلسفہ ہے جس کا دفاع، ارتقاء پرست ہر حال میں کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی دو اہم اور بدنام ترین جعلسازیاں ذیل میں بیان کی جارہی ہیں :
پلٹ ڈاؤن آدمی (Piltdown Man) :
1912 ء میں ایک مشہور ڈاکٹر اور شوقیہ معدومی بشریات دان (Amateur Paleoanthropologist) چارلس ڈاسن نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے پلٹ ڈاؤن، برطانیہ کے مقام سے جبڑے کی ہڈی اور کھوپڑی کے حصے ملے ہیں۔ اگرچہ یہ کھوپڑی انسانی نما تھی لیکن جبڑا نمایاں طور پر بندروں جیسا تھا۔ ان نمونہ جات کو ’’پلٹ ڈاؤن آدمی‘‘ (Piltdown Man) کا نام دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ رکازات پانچ لاکھ سال قدیم ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ رکازات انسانی ارتقاء کے ضمن میں حتمی ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں۔ چالیس سال تک اس ’’پلٹ ڈاؤن آدمی‘‘ پر متعدد مقالہ جات لکھے گئے، کئی تصاویر بنائی گئیں، وضاحتیں پیش کی گئیں اور اس رکاز کو انسانی ارتقاء کی فیصلہ کن شہادت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔
مگر 1949ء میں جب سائنس دانوں نے ایک بار پھر اس کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ’’رکاز‘‘ بڑی سوچی سمجھی جعلسازی تھا، اور جسے انسانی کھوپڑی کو گوریلے کی ایک قسم (Orangutan) کے جبڑے کی ہڈی سے ملا کر تیار کیا گیا تھا۔
فلورین تاریخ نگاری (FluorineDating) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ابتداء میں محققین نے دریافت کیا کہ انسانی کھوپڑی صرف چند ہزار سال پرانی تھی۔ اورنگوٹان کے جبڑے ہڈی میں دانت مصنوعی طور پر پھنسائے گئے تھے۔ علاوہ ازیں ان رکازات کے ساتھ ملنے والے ’’قدیم‘‘ اوزار بھی جعلی تھے جنہیں دھاتی آلات کے ذریعے یہ شکل دی گئی تھی۔ اوکلے، وائنر اور کلارک نامی ماہرین کا یہ مطالعہ 1953ء میں مکمل ہوا اور اسی سال عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔
حتمی نتائج کے مطابق یہ کھوپڑی صرف 500 سال پہلے کے کسی آدمی کی تھی اور نچلے جبڑے کی ہڈی، شکار کئے ہوئے اورنگوٹان سے لی گئی تھی! بعدازاں اس کے دانتوں کو قطار کی شکل دے کر جبڑے میں لگایا گیا اور جوڑوں کو باریک ریتی سے گھس کر ایسے بنایا گیا کہ وہ کسی انسان سے مماثل دکھائی دینے لگیں۔ آخر میں ان سارے ٹکڑوں کو ’’قدیم‘‘ ظاہر کرنے کے لئے پوٹاشیم ڈائی کرومیٹ سے داغدار کردیا گیا۔ (یہ دھبے، تیزاب میں ڈبوتے ہی غائب ہوگئے۔) اس تحقیقی ٹیم کا ایک رکن، لی گروس کلارک اپنی حیرت نہیں چھپا سکا :
’’مصنوعی خراشوں کی شہادتیں فوراً ہی آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہیں۔ عملاً یہ اتنی واضح تھیں کہ یہ پوچھا جاسکتا ہے : یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی نے اتنے لمبے عرصے تک انہیں محسوس ہی نہ کیا ہو؟‘‘
نبراسکا آدمی (NebraskaMan) :
1922ء میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ڈائریکٹر، ہنری فیئر فیلڈ اوسبورن نے اعلان کیا کہ اس نے مغربی نبراسکا میں اسنیک بروک کے قریب سے ڈاڑھ (molar tooth) کا رکاز دریافت کیا ہے جو پلیوسینی عصر (Pliocene Period) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دانت مبینہ طور پر بیک وقت انسان اور گوریلوں کی مشترکہ خصوصیات کا حامل دکھائی دیتا تھا۔ اس کے بارے میں سائنسی دلائل کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ بعض حلقوں نے کہا کہ یہ دانت ’’پتھے کن تھروپس ایریکٹس‘ ‘(Pithecanthropus Erectus) سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ یہ دانت، جدید انسانی نسل کے زیادہ قریب ہے۔ مختصراً یہ کہ اس ایک دانت کے رکاز کی بنیاد پر زبردست بحث شروع ہوگئی اور اسی سے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کے تصور نے بھی مقبولیت حاصل کی۔ اسے فوراً ہی ایک عدد ’’سائنسی نام‘‘ بھی دے دیا گیا: ’’ہیسپیروپتھے کس ہیرلڈ کوکی‘‘!
متعدد ماہرین نے اوسبورن کی بھرپور حمایت کی۔ صرف ایک دانت کے سہارے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کا سر اور جسم بنایا گیا۔ یہاں تک کہ نبراسکا آدمی کی پورے گھرانے سمیت تصویر کشی کردی گئی۔
1927ء میں اس کے دوسرے حصے بھی دریافت ہوگئے۔ ان نودر یافتہ حصوں کے مطابق یہ دانت نہ تو انسان کا تھا اور نہ کسی گوریلے کا۔ بلکہ یہ انکشاف ہوا کہ اس دانت کا تعلق معدوم جنگلی سؤروں کی ایک نسل سے تھا جو امریکہ میں پائی جاتی تھی، اور اس کا نام ’’پروستھی نوپس‘‘ (Prosthennops) تھا۔
(ارتقاء کی مزید جعلسازیاں اور غلط فہمیاں بیان کرتے ہوئے یہ مضمون آئندہ شمارے میں اختتام پذیر ہوگا۔)
کیا انسان اور گوریلے (Ape)کے آباؤ اجداد ایک تھے؟
نظریہ ارتقاء کے دعووں کے مطابق، انسانوں اور گوریلوں کے آباؤ اجداد ایک ہی تھے۔ یہ مخلوقات، وقت کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوئیں اور انہی میں سے بعض موجودہ عہد کے گوریلے بن گئے جبکہ دوسرے گروہ نے ارتقاء کا دوسرا راستہ اختیار کیا اور آج کے انسان کی شکل میں آگیا۔
ارتقاء پرست، انسان اور گوریلے کے اس نام نہاد جدِ امجد کو ’’آسٹرالو پتھے کس‘‘ (Australopitheacus) یعنی ’’جنوبی افریقہ کا گوریلا‘‘ کہتے ہیں۔ آسٹرالو پتھے کس، گوریلے کی ایک معدوم نسل کے سوا کچھ نہیں ہے، جس کی متعدد اقسام تھیں۔ ان میں سے کچھ تو بہت مضبوط تھیں جبکہ بعض پستہ قامت اور کمزور ہوا کرتی تھیں۔
ارتقائی ماہرین، انسانی ارتقاء کے اگلے مرحلے کی جماعت بندی کرتے ہوئے اسے ’’ہومو‘‘ (Homo) یعنی ’’آدمی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ ارتقائی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ’’ہومو‘‘ سلسلے کے جاندار، آسٹرالو پتھے کس کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ تھے، اور وہ جدید انسان سے بہت زیادہ مختلف نہیں تھے۔ ہمارے عہدکے جدید انسان یعنی ’’ہوموسیپئین‘‘ (HomoSapiens) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اسی (ہومو) سلسلے میں ارتقاء کا حالیہ ترین مرحلہ ہے۔
معاملے کی اصل سچائی کچھ اور ہے۔ آسٹرالو پتھے کس کا انسان سے تعلق محض تصوراتی ہے اور یہ صرف ارتقاء پرستوں کے ذہن رسا کی کارستانی ہے۔ آسٹرالو پتھے کس، حقیقتاً گوریلے ہی تھے جو ختم ہوگئے۔ اسی طرح ’’ہومو سلسلے‘‘ (Homo Series) میں موجود متعدد جاندار اصل میں انسانوں ہی کی مختلف نسلیں تھیں جو وقت کے ساتھ ساتھ فنا ہوگئیں۔ ان کا گوریلوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ ارتقاء پرست ماہرین نے انسانوں اور گوریلوں کے متعدد رکازات کو اس انداز سے ترتیب دیا ہے کہ وہ چھوٹے سے بڑے کی طرف جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور یوں ’’انسانی ارتقاء کی اسکیم‘‘ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ یہ رکازات کسی بھی طرح سے ارتقائی عمل کے حق میں دلیل کی حیثیت سے پیش نہیں کئے جاسکتے، اور یہ کہ انسان کے ان نام نہاد ’’آباؤ اجداد‘‘ میں سے بعض صرف گوریلے اور بعض صرف انسان ہی تھے۔ اب ذرا آسٹرالو پتھے کس پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں، جو (ارتقائی ماہرین کے نزدیک) انسانی ارتقائی اسکیم کے ضمن میں سب سے پہلی کڑی کا درجہ رکھتے ہیں۔
آسٹرالو پتھے کس: معدوم گوریلے
ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے کہ آسٹرالو پتھے کس ہی جدید انسان کا نہایت ابتدائی (Primitive) جدِ امجد ہے۔ یہ ایک پرانی نوع ہے جس کا سر اور کھوپڑی جدید گوریلوں کی مانند ہیں، جبکہ کھوپڑی کے اندر دماغ کی گنجائش قدرے کم ہے۔ ارتقاء پرستانہ دعووں کے مطابق، ان جانداروں میں ایک خصوصیت ایسی تھی جو انہیں حتمی طور پر جدید انسان کا جدِ امجد ثابت کرتی ہے۔۔۔ اور وہ تھی ’’دو پیروں پر چلنا‘‘ (bipedalism) ۔
انسان اور گوریلے کی حرکات و سکنات مکمل طور پر جداگانہ ہیں۔ انسان دو پیرو ں پر پوری آزادی سے حرکت کرسکتا ہے۔ دو پیروں پر اتنی سہولت کے ساتھ کوئی دوسرا جاندار حرکت کرنے کے قابل نہیں۔ دیگر جانوروں میں اس طرح سے حرکت کرنے کی محدود صلاحیت ضرور ہے لیکن ان کاجسمانی ڈھانچہ بھی جھکا ہوا (bent) ہے۔
ارتقائی ماہرین کے بقول، آسٹرالو پتھے کس نامی یہ جاندار بھی جھک کر، دو پیروں پر چل سکتے تھے لیکن انسان کی طرح سیدھے کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔ محدود پیمانے پر دو پیروں سے چلنے کی یہ صلاحیت بھی ارتقائی ماہرین کے نزدیک امید افزاء تھی۔ اسی لئے انہوں نے مذکورہ مخلوق کو انسان کا جدِ امجد مان لیا۔
تاہم آسٹرالو پتھے کس کے دو پایہ (bipedal) ہونے کو جھٹلانے والی پہلی شہادت بھی ارتقائی ماہرین نے خود ہی فراہم کی۔ آسٹرالو پتھے کس کے رکازات کے مزید تفصیلی مطالعے نے ارتقاء پرستوں کو یہ تک ماننے پر مجبور کردیا کہ یہ مخلوق ’’گوریلا نما‘‘ (Ape-like) تھی، انسان جیسی نہیں۔ 1970ء کے عشرے میں آسٹرالو پتھے کس کی جسمانی ساخت (Anatomy) پر مفصل تحقیق کرنے کے بعد چارلس ای آکسنارڈ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آسٹرالو پتھے کس کے ڈھانچے کی ساخت، جدید دور کے اورنگ اُوٹان (Orang-Utan) گوریلوں سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے :
’’آج کے دور میں انسانی ارتقاء کے متعلق ہماری سمجھ بوجھ کا انحصار آسٹرالو پتھے کس رکازات کے دانتوں، جبڑوں اور کھوپڑی کے حصوں کے مطالعات پر ہے۔ ان سب سے یہ ظاہر ہے کہ آسٹرالو پتھے کس کے انسان سے قریبی تعلق والا خیال شاید درست نہ ہو۔ یہ سارے رکازات گوریلوں، چمپانزیوں اور انسانوں سے مختلف ہیں۔ البتہ ایک جماعت کی حیثیت سے مطالعہ کرنے پر آسٹرالو پتھے کس اور ’’اورنگ اُوٹان‘‘ میں زیادہ مماثلت نظر آتی ہے‘‘۔
ارتقاء پرستوں کو اس دریافت سے بھی مزید خفت اٹھانا پڑی کہ آسٹرالو پتھے کس، جھکے ہوئے انداز سے بھی دو پیروں پر چلنے کے قابل نہیں تھے۔ جسمانی اعتبار سے آسٹرالو پتھے کس کے لئے مبینہ طور پر دو پایہ ہونا غیر مؤثر تھا، کیونکہ جھک کر دو پیروں پر چلنے میں انہیں بہت زیادہ توانائی کی ضرورت پڑتی ۔ 1996ء میں تیار کی گئی کمپیوٹر نقل (سمولیشن) کے ذریعے انگریز معدوم بشریات داں، رابرٹ کرومپٹن نے بھی یہی ثابت کیا کہ اس طرح کی ’’ملی جلی حرکت (Compound Stride) قطعاً ناممکن تھی‘‘۔ کرومپٹن نے نتیجہ اخذ کیا: ’’(اس طرح کا) کوئی جاندار یا تو سیدھا کھڑا ہوکر چل سکتا ہے یا پھر چار پیروں پر۔ ان کے درمیان میں چلنے پھرنے کا کوئی بھی انداز زیادہ لمبے عرصے تک برقرار نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس میں بہت زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے‘‘۔ گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسٹرالو پتھے کس دو پیروں پر، جھک کر چلنے کے قابل نہیں ہوسکتے تھے۔
غالباً آسٹرالو پتھے کس کے دو پایہ نہ ہونے کا سب سے اہم مطالعہ 1994ء میں منظر عام پر آیا، جو ماہر تشریح الاعضاء (Anatomist) فریڈ اسپور اور ان کی ٹیم نے یونیورسٹی آف لیور پول (برطانیہ)، ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن اناٹومی اینڈ سیلولر بائیالوجی میں کیا تھا۔ اس گروپ نے جانداروں کے رکازات کا مطالعہ کرکے، ان کے دو پایہ / چوپایہ ہونے کے امکانات کا تفصیلی تجزیہ کیا۔ اس تحقیق کے دوران توازن کے اس خودکار نظام کا مطالعہ کیا گیا جو کان میں صدف گوش (Cochlea) کے مقام پر پایا جاتا ہے۔ اس گروپ نے بھی یہی دریافت کیا کہ آسٹرالو پتھے کس، کسی بھی طور پر دو پایہ نہیں ہوسکتے تھے۔ اس طرح ان تمام دعووں کی نفی ہوگئی جن کے تحت آسٹرالو پتھے کس کو ’’انسان نما‘‘ بتایا جاتا ہے۔
ہومو سلسلہ : اصل انسانی نسل
انسان کے مفروضہ اور نام نہاد ارتقاء کا اگلا مرحلہ ’’ہومو‘‘ یعنی انسانی سلسلہ کہلاتا ہے۔ اس سلسلے کے جاندار انسان ہیں جو جدید انسان سے مختلف نہیں۔ البتہ، اگر کوئی فرق ہے تو صرف نسل (Race) کا۔ اسی فرق کو ارتقائی ماہرین بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ انسان کی کوئی ’’نسل‘‘ نہیں تھی بلکہ ’’انسان جیسی‘‘ کوئی اور نوع (Species) تھی۔ تاہم، جیسا کہ ہم جلد ہی دیکھیں گے کہ ہومو سلسلے کے جاندار، عام انسانوں کی مختلف نسلوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھے۔
ارتقاء پرستوں کی پرکشش ’’ارتقائی اسکیم‘‘ کے مطابق، ہومو سلسلے کی انواع کچھ اس طرح سے ارتقاء پذیر ہوئیں: سب سے پہلے ہومو ایریکٹس (Homo Erectus) ، پھر ہومو سیپیئنز آرچیئک (Homosapiens Archaic) اور نینڈرتھل آدمی (NeanderthalMan)، پھر کرومیگنن آدمی (Cro-magnon Man) اور سب سے آخر میں جدید انسان۔
ارتقائی ماہرین کے تمام تر دعووں کے برخلاف، وہ تمام ’’انواع‘‘ جو ہم نے ابھی گنوائی ہیں، اصل انسانوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آئیے، پہلے ہومو ایریکٹس کا تجزیہ کرتے ہیں جسے ارتقائی ماہرین ’’انسانی انواع‘‘ کی سب سے پہلی نوع کہتے ہیں۔
ہومو ایریکٹس کے ’’ابتدائی انسان‘‘ نہ ہونے کی سب سے متاثر کن شہادت ’’ترکانا لڑکے‘‘ (Turkana Boy) کارکاز ہے جو ہومو ایریکٹس کی قدیم ترین باقیات میں بھی شامل ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ یہ رکاز ایک بارہ سالہ لڑکے کا ہے، جو 1.83 میٹر لمبا رہا ہوگا۔ اس نوجوان کا سیدھا ڈھانچہ، جدید انسان سے قطعاً مختلف نہیں۔ اس کا لمبا اور چھریرا ڈھانچہ پوری طرح ان لوگوں سے ہم آہنگ ہے جو آج بھی منطقہ حارہ (Tropics) کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ رکاز ایک اہم شہادت فراہم کرتا ہے کہ ہومو ایریکٹس، جدید انسان ہی کی ایک نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ ارتقائی معدومیات داں، رچرڈ لیکی نے ہومو ایریکٹس اور جدید انسان کا کچھ اس طرح سے موازنہ کیا ہے:
’’کھوپڑی کی ساخت میں بھی فرق نظر آتے ہیں، جو چہرے کے آگے نکلے ہونے ، اور پیشانی کی سختی وغیرہ میں نمایاں ہیں۔ یہ فرق، مختلف جغرافیائی علاقوں میں رہنے والے جدید انسانو ں کے مابین پائے جانے والے فرق سے زیادہ نہیں ۔ اس طرح کی حیاتیاتی تبدیلیاں اس وقت اُبھرتی ہیں جب آبادیاں جغرافیائی اعتبار سے علیحدہ ہوجائیں اور ان میں یہ دوری ایک لمبے عرصے تک برقرار رہے‘‘۔
لیکی کے کہنے کا واضح طور پر مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور ہومو ایریکٹس کے درمیان جو فرق ہے، وہ نیگرو اور اسکیمو باشندوں سے زیادہ کا نہیں ہے۔ کھوپڑی کی ساخت میں نظر آنے والا فرق ان کے کھانے پینے کے طریقے، لمبے فاصلے پر نقل مکانی کرنے اور طویل عرصے تک دوسری انسانی نسلوں سے میل جول نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔
ہومو ایریکٹس کے ’’ابتدائی‘‘ نوع نہ ہونے کے ضمن میں وہ رکازات بھی مضبوط شہادت کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں جو ستائیس ہزار سال سے لے کر صرف تیرہ ہزار سال تک قدیم ہیں۔ ٹائم میگزین میں (جو ایک سائنسی جریدہ نہیں ہے) شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق (جس کا سائنسی حلقوں پر بہت اثر پڑا) ہومو ایریکٹس کے 27 ہزار سال قدیم رکازات جاوا سے، جبکہ اسی نوع کے تیرہ ہزار سال قدیم رکازات آسٹریلیا میں ’’کاؤ‘‘ (Kow) کے دلدلی علاقے سے دریافت ہوئے تھے۔ ان تمام رکازات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہومو ایریکٹس، ہمارے وقت کے بے حد قریبی زمانے تک زندہ اور موجود رہے تھے۔۔۔ اور ان کا تعلق انسان ہی کی نسل سے تھا، جو تاریخ کے صفحات پر گم ہوگئی تھی۔
آرچیئک ہومو سیپیئنز اور نینڈرتھل آدمی
تصوراتی ارتقائی اسکیم کے مطابق، آرچیئک ہومو سیپیئنز، جدید انسان کے فوری پیشرو (ImmediateForerunners) ہیں۔ درحقیقت، ارتقائی ماہرین ان آدمیوں کے بارے میں زیادہ معلومات بہم پہنچانے سے قاصر ہیں، کیونکہ ان کے اور جدید انسان کے درمیان بہت معمولی سا فرق ہے۔ بعض محققین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس نسل کے کچھ نمائندہ لوگ آج بھی زندہ ہیں۔ اس ضمن میں وہ بطور مثال، آسٹریلیا میں رہنے والے پراچین باشندوں (Aborigines) کو پیش کرتے ہیں۔ ہومو سیپیئنز کی طرح پراچین باشندوں کی بھی آگے کو نکلی ہوئی بھنویں ہوتی ہیں۔ اندر کی طرف دھنسا ہوا جبڑا اور معمولی سا کم حجم دماغی جوف، ان کے دیگر نمایاں خدوخال میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، کچھ اور دریافتوں سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایسے لوگ اٹلی اور ہنگری کے بعض قصبوں میں بھی رہا کرتے تھے۔۔۔ اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔
ارتقائی ماہرین، ہالینڈ کی وادی ’’نینڈر‘‘سے دریافت شدہ انسانی رکازات کو ’’نینڈرتھل آدمی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ کئی موجودہ محققین، نینڈرتھل آدمی کو جدید انسان کی ذیلی نوع (Sub-Species) کی حیثیت سے بیان کرتے ہیں اور اسے ’’ہومو سیپیئن نینڈر ٹیلن سس ‘‘ (Homo Sapien Neandertalensis) کہتے ہیں۔ اسے ایک انسانی نسل ہی بتایا جاتا ہے جو جدید انسان کے پہلو بہ پہلو، ایک ہی زمانے اور ایک جیسے علاقوں میں رہا کرتی تھی۔ دریافتوں سے یہ تصدیق بھی ہوتی ہے کہ نینڈرتھل اپنے مردے دفناتے، آلاتِ موسیقی بناتے، اور اپنے زمانے میں رہنے والے جدید انسانوں (Homosapiens Sapiens) کی طرح تہذیب و تمدن کے حامل بھی ہوا کرتے تھے۔ نینڈرتھل رکازات کی مکمل جدید کھوپڑی اور ڈھانچے کی تفصیلی ساخت جیسے امور، اب کسی مفروضے کے محتاج نہیں ہیں۔ نیو میکسیکو یونیورسٹی کے ایرک ٹرنکاس، جو اس موضوع پر مہارت اور خصوصی شہرت رکھتے ہیں، تحریر کرتے ہیں :
’’نینڈرتھل ڈھانچوں کی باقیات اور جدید انسان کے باہمی موازنے سے ثابت ہوچکا ہے کہ نینڈرتھل کی جسمانی ساخت میں ایسی کوئی چیز نہیں جس سے حرکت پذیری، اختراع، تفکر، یا زباندانی جیسی صلاحیتوں کے ضمن میں انہیں جدید انسان سے کم تر کہا جاسکے‘‘۔
دراصل نینڈرتھل کو جدید انسان کے مقابلے میں کچھ ’’ارتقائی برتری‘‘ بھی حاصل ہے۔ نینڈرتھل کی کھوپڑی میں زیادہ بڑا دماغ سمانے کی گنجائش تھی۔ پھر وہ جسمانی اعتبار سے بھی ہمارے مقابلے میں زیادہ مضبوط اور توانا تھے۔ ٹرنکاس مزید لکھتے ہیں:
’’نینڈرتھل کی نمایاں خصوصیات میں ایک اہم خاصیت، ان کی پسلیوں کے جال اور حرکت پذیر ہڈیوں کا زیادہ بھاری بھرکم ہونا بھی ہے۔ تمام محفوظ شدہ ہڈیاں ایک ایسی مضبوطی کا تعین کرتی ہیں جو شاید ہی کسی انسان نے حاصل کی ہو۔ مزید یہ کہ مذکورہ مضبوطی صرف بالغ مردوں ہی تک محدود نہ تھی (جیسا کہ عموماً توقع کی جاتی ہے) بلکہ ان کی عورتیں، نوجوان اور بچے تک اسی قدر مضبوط جسم کے مالک تھے۔‘‘
گویا یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ نینڈرتھل، انسانوں ہی کی ایک نسل کا نام ہے جو دوسری انسانی نسلوں کے پہلو بہ پہلو، انہی کے زمانے میں موجود تھی۔
ان تمام حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ’’انسانی ارتقاء‘‘ کا یہ منظرنامہ، جو ارتقاء پرستوں نے پیش کیا ہے، صرف ان کے زورِ تخیل کا حاصل ہے۔۔۔ اور یہ کہ انسان ہمیشہ سے انسان رہا ہے، اور گوریلے ہمیشہ سے گوریلے ہی رہے ہیں۔
کیا زندگی ’’ارتقاء پرستانہ اتفاقات‘‘ کا نتیجہ ہے؟
نظریہ ارتقاء کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ زندگی، ایک خلئے سے شروع ہوئی جو زمین کے ابتدائی ماحول میں اتفاقاً بن گیا تھا۔ آئیے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خلئے کی ساخت کیسی ہوتی ہے، اس میں کیسے کیسے اسرار پوشیدہ ہیں، اور یہ کہ اسے ’’اتفاقیہ وجود‘‘ قرار دینا بجائے خود کتنی بڑی نامعقولیت ہے۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ آج بھی، جبکہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، خلیہ کئی حوالوں سے ہمارے لئے پراسراریت کا باعث ہے۔
اپنے عملی نظاموں مثلاً مواصلاتی نظام، حرکی نظام اور خلئے کے انتظام و انصرام وغیرہ کے حوالے سے خلیہ کسی شہر سے کم پیچیدہ نہیں۔ اس میں توانائی پیدا کرنے والے اسٹیشن بھی ہیں (جن سے حاصل ہونے والی توانائی، خلئے کے استعمال میں آتی ہے)، زندگی کے لئے مرکزی اہمیت کے حامل خامرے اور ہارمون تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی ہیں، معلومات کا ذخیرہ (ڈیٹا بینک) بھی ہے جہاں خلئے میں بننے والی کسی بھی پیداوار (شے) کے بارے میں تفصیلات (معلومات) جمع ہوتی ہیں، جدید تجربہ گاہیں اور ریفائنریاں بھی ہیں جہاں خام مال کو قابلِ استعمال اور کارآمد شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے، پیچیدہ مواصلاتی نظام اور پائپ لائنیں ہیں جہاں سے خام مال اور تیار شدہ اشیاء گزرتی ہیں، اور خاص طرح کے پروٹینز سے بنی ہوئی خلوی جھلی بھی ہے جو خلئے میں اندر آنے اور باہر جانے والے مادوں کو قابو میں رکھتی ہے۔ یہ تو خلئے کے پیچیدہ نظام کی بہت معمولی سی جھلک ہے۔
زمین کا ابتدائی ماحول تو بہت دور کی بات ہے۔ خلئے کی ترکیب اور کام کرنے کا طریقہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ اسے آج کی جدید ترین آلات سے لیس تجربہ گاہوں میں بھی ’’مصنوعی طور پر‘‘ تیار نہیں کیا جاسکا۔ خلئے کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز استعمال کرتے ہوئے آج تک خلئے کا ایک جزو (Organelle) بھی تیار نہیں کیا جاسکا (مثلاً مائٹو کونڈریا یا رائبوسوم وغیرہ)، پورا خلیہ تو بہت آگے کی بات ہے۔ ارتقائی اتفاقات کے تحت کسی اولین خلئے کا ازخود وجود میں آجانا اتنا ہی تصوراتی ہے جتنا ایک سینگ والا اُڑن گھوڑا (یونی کورن)۔
پروٹین کا اتفاقات کو چیلنج :
بات صرف خلئے تک ہی محدود نہیں، بلکہ قدرتی حالات کے تحت ہزاروں سالمات سے مل کر تشکیل پانے والا پروٹین بنانا بھی ناممکن ہے۔
پروٹین (Protien) وہ قومی البحثہ سالمات ہوتے ہیں جو امائنو ایسڈز کی خاص تعداد کے مخصوص ترتیب میں ملنے پر بنتے ہیں۔ یہی سالمات خلئے کے وجود کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اب تک دریافت ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا پروٹین بھی پچاس (50) امائنو ایسڈز پر مشتمل ہے۔ مگر بعض پروٹین سینکڑوں اور ہزاروں امائنو ایسڈز کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ خلئے کی کارکردگی میں پروٹین کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے جبکہ پروٹین کی اپنی بنیاد، امائنو ایسڈز ہیں۔ لیکن اگر پروٹینی زنجیر میں غیر ضروری طور پر کسی امائنو ایسڈ کا اضافہ، کمی یا تبدیلی واقع ہوجائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ پورا پروٹین ہی ناکارہ ہوکر رہ جائے۔ نظریہ ارتقاء، جو امائنو ایسڈز کی ’’حادثانی/ اتفاقیہ تشکیل‘‘ کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے، اپنی بنیادیں پروٹین کی تشکیل پر استوار کرتا ہے۔
امکان (Probability) کے سادہ ترین حساب کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پروٹین کی کارآمد ساخت کسی بھی طرح سے اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔
نظامِ قدرت میں کل 20 امائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں۔ انہی کی مختلف نسبتوں اور تناسبوں کے رد و بدل سے مختلف پروٹین بنتے ہیں۔ اب اگر ہم اوسط جسامت والا کوئی پروٹینی سالمہ فرض کرلیں جو 288 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہو، تو یہ امائنو ایسڈز 10300 مختلف طریقوں کے ذریعے مل کر 288 یونٹوں (امائنو ایسڈز) والی پروٹینی زنجیر بناسکتے ہیں۔ (10300 کا مطلب ہے 1 کے بعد 300 صفر!) ان تمام ممکنہ سلسلوں (زنجیروں) میں سے صرف ایک زنجیر ایسی ہوگی جو ہمارے مطلوبہ خواص کا حامل پروٹین بنائے گی۔ اسے ریاضی کی زبان میں اس طرح سے کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا پروٹین حاصل ہونے کا امکان 10300 میں سے صرف ایک (1) ہے۔ امائنو ایسڈز کی باقی زنجیریں یا تو زندگی کے لئے بے کار ہوں گی یا پھر نقصان دہ۔ مطلوبہ خواص کا حامل مفید پروٹین ’’اتفاق سے‘‘ حاصل ہونے کا یہ امکان اس قدر کم ہے کہ اسے تقریباً ناممکن سمجھا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ 288 امائنو ایسڈز والے پروٹین کی مثال خاصی کم تر درجے کی ہے۔ ورنہ بہت سے بڑے پروٹین ہزاروں امائنو ایسڈز تک کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جب ہم ان پر امکان کے اسی حساب کتاب کا اطلاق کرتے ہیں تو ’’ناممکن‘‘ جیسا لفظ بھی حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک پروٹین کی اتفاقیہ تشکیل ناممکن ہے تو اس کے مقابلے میں لاکھوں پیچیدہ پروٹینز کا بیک وقت، اور اس قدر منظم انداز سے وجود میں آنا اور خلئے کی تکمیل کرنا، اس سے بھی لاکھوں گنا زیادہ ناممکن ہے۔ پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خلیہ محض پروٹینز کا مجموعہ نہیں ہے۔ خلئے میں پروٹینز کے علاوہ نیو کلیئک ایسڈز، کاربوہائیڈریٹس، روغنیات اور متعدد انواع و اقسام کے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی پائے جاتے ہیں۔۔۔ اور یہ تمام کے تمام اپنی ساخت اور ذمہ داریوں، دونوں کے اعتبار سے مکمل نظم و ضبط کے ساتھ، آپس میں پوری طرح سے ہم آہنگ اور متناسب رہتے ہیں۔
یہاں تک آنے کے بعد ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ خلئے کے لاکھوں پروٹینز میں سے کسی ایک کی تشکیل بھی نظریہ ارتقاء کی مدد سے بیان نہیں کی جاسکتی، چہ جائیکہ خلئے کے ارتقاء پر بحث کی جائے۔
ترکی میں ارتقاء کے مشہور اور مستند ترین ماہر، پروفیسر ڈاکٹر علی دیمر سوئے، اپنی کتاب’’موروثیت اور ارتقاء‘‘ (Kalitim ve Evrim) میں سائٹو کروم سی (Cytochrome-C) نامی اہم خامرے کی اتفاقیہ تشکیل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’سائٹو کروم سی سلسلے کی (اتفاقیہ) تشکیل کا امکان صفر جتنا ہی ہے۔ یعنی اگر زندگی کے لئے کسی مخصوص (سالماتی) سلسلے کی ضرورت ہے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بننے کا واقعہ پوری کائنات (کی مجموعی تاریخ) میں صرف ایک مرتبہ ہی ہوا ہوگا۔ بصورتِ دیگر کسی ایسی مابعد الطبیعی قوت نے اسے تخلیق کیا ہوگا، جو ہماری سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے۔ آخر الذکر کو تسلیم کرنا سائنسی مقاصد کے اعتبار سے موزوں نہیں۔ لہٰذا ہمیں پہلا مفروضہ ہی ماننا پڑے گا‘‘۔
ان سطور کے بعد ڈاکٹر دیمر سوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ امکان، جو صرف اس وجہ سے قبول کیا جاتا ہے کہ یہ ’’سائنس کے مقاصد کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے‘‘ غیر حقیقت پسندانہ ہے :
’’سائٹو کروم سی بنانے والا، امائنو ایسڈز کا خاص الخاص سلسلہ (اتفاقاً ) وجود میں آجانے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ کسی بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے مکمل انسانی تاریخ لکھنا۔۔۔ اس پر یہ بھی مان لینا کہ بندر، ٹائپ رائٹر کی کلیدوں (Keys) کو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر دبا رہا ہے‘‘۔
پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کا درست تسلسل ہی زندگی کے لئے کافی نہیں۔ اس کے علاوہ ان تمام کے تمام امائنو ایسڈز کا ’’بائیں ہاتھ والا‘‘ (Left Handed) ہونا بھی لازمی ہے۔ کیمیائی اعتبار سے امائنو ایسڈز کی دو اقسام ہیں، جن میں سے ایک کو ’’بائیں ہاتھ والے‘‘ اور دوسری کو ’’دائیں ہاتھ والے‘‘ (RightHanded) امائنو ایسڈز کہا جاتا ہے۔ ان کی سہ جہتی (3 Dimensional) ساخت کے پیشِ نظر، ان امائنو ایسڈز کا باہمی فرق اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ہمارا اور آئینے میں ہمارے عکس کا۔ اسی چیز کو ’’عکسی تشاکل‘‘ (Mirror Symmetry) بھی کہا جاتا ہے۔ گویا اگر ہم سیدھا (دایاں) ہاتھ ہلائیں گے تو آئینے میں ہمارا عکس اُلٹا (بایاں) ہاتھ ہلائے گا۔ امائنو ایسڈز کا فرق اس طرح سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ سیدھے (دائیں) ہاتھ سے لکھتے ہیں اور بعض لوگ اُلٹے (بائیں) ہاتھ سے۔ بس یہی فرق دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز میں بھی ہوتا ہے۔ ان دونوں اقسام کے امائنو ایسڈز، قدرتی طور پر یکساں تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے جڑنے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، تحقیق سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ جاندار اشیاء میں پائے جانے والے تمام پروٹینز، صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے مل کر بنے ہیں۔ اور یہ کہ اگر پروٹین کی سالماتی زنجیر میں دائیں ہاتھ والا کوئی امائنو ایسڈ شامل ہوجائے تو وہ اسے ناکارہ بنا دے گا۔
اب اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ زندگی واقعی کسی اتفاق کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی تھی، جیسے کہ ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے۔ ایسی صورت میں ’’اتفاق سے‘‘ بننے والے، دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو بھی یکساں تعداد میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ سوال کہ آخر پروٹینز صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے کیوں بنتے ہیں، اور یہ کہ زندگی کی تخلیق میں دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز نے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا، آج تک ارتقائی ماہرین کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ برٹانیکا سائنس انسائیکلو پیڈیا میں، جو ارتقاء کا زبردست حامی بھی ہے، مصنفین یہ بتاتے ہیں کہ زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں اور پروٹین جیسے پیچیدہ پولیمرز (Polymers) کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز صرف اور صرف بائیں ہاتھ والے ہیں۔ یہیں پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ ایسی صورتحال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دس لاکھ مرتبہ سکّہ اچھالا جائے اور ہر مرتبہ اس کا صرف ایک ہی رُخ بار بار اوپر آئے۔ اسی انسائیکلوپیڈیا میں وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سالمات کے دائیں یا بائیں ہاتھ والے ہونے کو سمجھنا ناممکن ہے اور یہ کہ اس چیز کا حیرت انگیز طور پر براہ راست تعلق، زمین پر زندگی کی ابتداء سے ہے۔
پروٹین میں امائنو ایسڈز کا صحیح تعداد، صحیح تسلسل اورمطلوبہ سہ جہتی ساخت کے ساتھ ترتیب میں ہونا بھی کافی نہیں۔ (کارآمد) پروٹین بنانے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بازوؤں (arms) والے امائنو ایسڈز کے سالمات، مخصوص نوعیت کے بازوؤں والے دوسرے سالمات ہی سے جڑیں۔ اس طرح بننے والے بند ’’پیپٹائڈ بند‘‘ (Peptide Bonds) کہلاتے ہیں۔ امائنو ایسڈز ایک دوسرے کے ساتھ مختلف بند بنا سکتے ہیں لیکن پروٹین صرف اور صرف انہی امائنو ایسڈز سے مل کر بنتا ہے جو آپس میں پیپٹائڈ بند بناتے ہیں۔
تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ اگر امائنو ایسڈز آزادانہ طور پر آپس میں ملاپ کرنے لگیں، یعنی انہیں پابند نہ کیا جائے تو ان میں سے 50 فیصد پیپٹائڈ بند بنائیں گے جبکہ باقی کے 50 فیصد مختلف اقسام کے بند تشکیل دیں گے جو پروٹینز میں موجود نہیں ہوتے۔ مطلب یہ ہوا کہ درست طریقے پر کام کرنے کے لئے، پروٹین بنانے والے ہر امائنو ایسڈ کو دوسرے امائنو ایسڈز کے ساتھ (جو یقیناًبائیں ہاتھ والے ہوں گے) پیپٹائڈ بند ہی بنانا پڑے گا۔ ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو منتخب یا مسترد کرے اور انفرادی طور پر اس امر کی ضمانت فراہم کرے کہ ہر امائنو ایسڈ، دوسروں کے ساتھ صرف پیپٹائڈ بند ہی بنائے گا۔
ان حالات کے تحت ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ 500 امائنو ایسڈز والا بالکل درست پروٹین ’’اتفاقاً ‘‘ بننے کے کیا امکانات ہیں:
درست ترتیب (تسلسل) سے ہونے کا امکان
1/10650 = 1/20500
بائیں ہاتھ والا ہونے کا امکان
1/10150 = 1/2500
پیپٹائڈ بند کے ذریعے متصل ہونے کا امکان
1/10150 = 1/2499
مجموعی امکان
1/10950 ، یعنی
10950 میں سے صرف 1 کا امکان!
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ امکان کس قدر کم ہے۔ یہ تو صرف کاغذی امکان ہے جو پہلی نظر ہی میں ناممکن سے بڑھ کر نظر آرہا ہے ورنہ عملاً اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے کسی اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ریاضی میں بھی اگر کسی واقعے کے ہونے کا امکان 1050 میں سے 1 ہو تو اس کی وقوع پذیری کا عملی امکان بھی ’’صفر‘‘ (0) ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔
جب 500 یونٹوں والے پروٹین کے اتفاقیہ تشکیل پانے کا امکان اس قدر ناممکن ہے تو بڑے پروٹینز، ناممکنات کی کن حدوں کو پہنچے ہوئے ہوں گے؟ شاید یہ ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ناممکن ہوں۔ ہیموگلوبین کا پروٹین، جو ہمارے خون کا جزوِ لازم ہے، 574 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نمایاں طور پر مذکورہ بالا مثال والے پروٹین سے بڑا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ ہمارے جسم میں موجود کھربوں سرخ خلیات میں سے ہر ایک خلئے میں لگ بھگ 28 کروڑ ہیموگلوبین پروٹینز موجود ہوتے ہیں۔ زمین کی متصورہ عمر بھی ایسے کسی سالمے کی اتفاقیہ تخلیق کے لئے کم ہے، خون کے سرخ خلیات کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔ اس تمام بحث کا خلاصہ اتنا ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف ایک پروٹین کی تشکیل کے مرحلے پر ہی عدم امکان کی ٹھوکر کھا کر، منہ کے بل گرتا ہے۔۔۔ اور ناکام ہوجاتا ہے۔
زندگی کی تخلیق ۔ جواب کی تلاش میں
جب ارتقاء پرستوں کو بخوبی یہ علم ہوگیا کہ زندگی کا حادثاتی طور پر،اتفاق سے وجود میں آنا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں تھا، اور یہ کہ نظریہ ارتقاء ان کے عقیدے کی کوئی معقولیت پسندانہ دلیل فراہم کرنے سے قاصر ہے تو انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوششیں شروع کردیں کہ جو چیز ہمیں تقریباً ناممکن نظر آتی ہے، وہ اتنی ناممکن نہیں تھی۔
انہوں نے متعدد تجربات وضع کئے جن کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ زندگی، بے جان مادّے سے خود بخود پیدا ہوسکتی ہے۔ اس کی سب سے بہترین اور قابلِ احترام مثال (ارتقاء پرستوں کے نزدیک) ’’ملر کے تجربے‘‘ یا ’’یوری اور ملر کے تجربے‘‘ سے دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ 1953ء میں اسٹینلے ملر نامی امریکی سائنس دان نے کیا تھا۔
یہ ثابت کرنے کے لئے کہ امائنو ایسڈز محض اتفاق سے وجود پذیر ہوسکتے تھے، ملر نے اپنی تجربہ گاہ میں ایسا ماحول تشکیل دیا جو اس کے خیال میں زمین کی ابتداء کے زمانے میں رہا ہوگا (مگر بعد میں یہ ماحول غیر حقیقت پسندانہ ثابت ہوگیا)۔ زمین کے ابتدائی ماحول کی نقل کرنے کے لئے ملر نے امونیا، میتھین، ہائیڈروجن اور آبی بخارات کا آمیزہ استعمال کیا۔
ملر جانتا تھا کہ میتھین، امونیا، آبی بخارات اور ہائیڈروجن، قدرتی حالات کے تحت آپس میں تعامل نہیں کریں گے۔۔۔ اور یہ کہ اس تعامل کو شروع کرانے کے لئے لازماً آمیزے میں توانائی داخل کرنا ہوگی۔ اس نے مان لیا کہ یہ توانائی، ابتدائی زمینی ماحول میں بجلی کے کڑاکوں سے آئی ہوگی۔ اس مفروضے پر تکیہ کرتے ہوئے اس نے اپنے تجربے میں مصنوعی برقی ڈسچارج (Electric Discharge) استعمال کیا۔
ملر نے اس تمام آمیزے کو 100 درجے سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر ایک ہفتے تک گرم کیا، اور اضافی طور پر اس میں برقی کرنٹ بھی شامل رکھا۔ ایک ہفتے بعد ملر نے اس تجربے کے دوران بننے والے مرکبات کا تجزیہ کیا اور یہ مشاہدہ کیا کہ بیس میں سے تین امائنو ایسڈز تیار ہوچکے ہیں۔
اس تجربے نے ارتقاء پرستوں میں زبردست جوش و خروش پیدا کردیا اور وہ فوراً اسے ایک غیر معمولی کامیابی کی حیثیت سے پیش کرنے لگے۔ مذکورہ تجربے سے انہیں بڑی تقویت ملی کہ وہ نظریہ ارتقاء کو اس کی بنیاد پر درست ثابت کرسکیں گے۔ لہٰذا انہوں نے ایک نیا منظرنامہ تشکیل دے ڈالا۔ ملر نے فرضی طور پر یہ ثابت کردیا تھا کہ امائنو ایسڈز ازخود بن سکتے تھے۔ اسی پر انحصار کرتے ہوئے ارتقاء پرستوں نے جلدی جلدی میں بعد کے مراحل بھی اخذ کرلئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد میں حادثاتی طور پر امائنو ایسڈز نے مخصوص سلسلوں میں جڑ کر پروٹین بنالئے۔ انہی میں سے بعض پروٹینز ’’اتفاقاً‘‘ خلوی جھلوی اور ایسی دوسری خصوصی خلوی ساختوں کیلئے تبدیل ہوگئے۔ انہی کی وجہ سے ’’کسی طرح‘‘ پہلا خلیہ وجود میں آگیا۔ اس تمام منظرنامے کی عمارت، ملر کے تجربے ہی پر کھڑی تھی۔
البتہ ملر کا نظریہ جس پر عقیدے کی حد تک یقین کرلیا گیا، اب تک کئی حوالوں سے غیر موزوں اور غلط ثابت ہوچکا ہے۔
ملر کے تجربے کی عدم توثیق :
لگ بھگ پچاس سال پہلے کیا گیا، ملر کا تجربہ آج کئی حوالوں سے غلط ثابت ہوچکا ہے لیکن ارتقاء پرست اب بھی اس تجربے، اور اس کے نتائج کو نظریہ ارتقاء کے حق میں حتمی ثبوت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔۔۔ اور یہ کہتے ہیں کہ زندگی، بے جان اشیاء سے ’’اچانک‘‘ ہی وجود میں آگئی۔ تاہم جب ملر کے تجربے کا تنقیدی، غیر جانبدارانہ اور بلا تعصب تجزیہ کیا جاتا ہے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ اتنا مسحور کن اور اطمینان بخش نہیں ہے جتنا کہ ارتقاء پرست سے بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ملر نے اپنے طور پر پہلے ہی سے یہ طے کر رکھا تھا کہ زمین کے ابتدائی ماحول میں امائنو ایسڈز یقیناًبنے ہوں گے۔ اس تجربے کے دوران ملر نے کچھ امائنو ایسڈز حاصل بھی کئے، لیکن تجربے کا عملی طریقہ کار بجائے خود اس کے اغراض و مقاصد سے متصادم تھا، جیسا کہ اب ہم دیکھیں گے :
* ملر نے ’’سرد شکنجہ‘‘ (Cold Trap) نامی نظام استعمال کرتے ہوئے، امائنو ایسڈز کو بنتے ہی ان کے ماحول سے الگ کرلیا تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا، تو (تجربے کا) ماحول ان امائنو ایسڈز کو فوراً ہی تباہ کر ڈالتا۔
یہ تصور کرنا بے معنی ہے کہ اس طرح کا کوئی سمجھدار نظام، زمین کے ابتدائی ماحول میں موجود رہا ہوگا جس نے امائنو ایسڈز کے سالمات کو تباہ ہونے سے بچالیا۔ بالائے بنفشی لہریں، بجلی کے کڑاکے، متعدد کیمیائی مرکبات اور آزاد آکسیجن (Free Oxygen) کی بہت زیادہ فیصد مقدار بھی زمین کے ابتدائی ماحول کا حصہ تھی۔ ان سارے عوامل کی حیثیت، امائنو ایسڈز کے لئے زہرِ قاتل کی سی ہے۔ یعنی صاف ظاہر ہے کہ کسی حفاظتی نظام کے بغیر، ابتدائی ماحول میں بننے والے امائنو ایسڈز کا تباہ ہوجانا یقینی تھا۔
* زمین کے جس ابتدائی ماحول کی ملر نے اپنے تجربے میں نقل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ غیر حقیقت پسندانہ تھا۔ نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی یقیناًزمین کے ابتدائی ماحول کا حصہ رہے ہوں گے لیکن ملر نے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے صرف امونیا اور میتھین استعمال کرنے پر اکتفا کی۔
کیوں؟ آخر ارتقائی ماہرین اسی نکتے پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں کہ زمین کے ابتدائی ماحول میں میتھین (CH4)، امونیا (NH3) اور آبی بخارات (H2O) کی کثیر مقداریں موجود رہی ہوں گی؟ جواب بہت سادہ ہے : امونیا کے بغیر امائنو ایسڈ بنانا ممکن نہیں۔ کیون مک کین (Kevin McKean) نے ’’ڈسکور‘‘ (Discover) میگزین میں شائع شدہ ایک مضمون میں اس پہلو پر بحث کی ہے :
’’ملر اور یوری نے زمین کے قدیم ماحول کی نقل، میتھین اور امونیا استعمال کرتے ہوئے کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین دھاتوں، چٹانوں اور برف کا ہم جنس (homogeneous) آمیزہ تھی۔ مگر حالیہ مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ (ابتداء میں) زمین آج کی بہ نسبت کہیں زیادہ گرم تھی اور یہ پگھلے ہوئے نکل (Nickel) اور لوہے (آئرن) پر مشتمل تھی۔ لہٰذا اس زمانے میں بننے والا کرۂ ہوئی کیمیائی طور پر زیادہ تر نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات پر مبنی رہا ہوگا۔ مگر نامیاتی سالمات (Organic Moleculer) تشکیل دینے کے لئے یہ میتھین اور امونیا جیسے موزوں نہیں ہیں‘‘۔
ایک لمبے عرصے کی خاموشی کے بعد آخرکار ملر نے خود بھی یہ اعتراف کرلیا کہ اس نے اپنے تجربے میں زمین کا جو مفروضہ ابتدائی ماحول نقل کیا تھا، وہ حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔
* ملر کے تجربے کی نفی کرنے والا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ زمین کے ابتدائی کرۂ ہوائی میں آکسیجن کی کثیر مقدار تھی جو امائنو ایسڈز کو تباہ کرنے کے لئے کافی تھی۔ آکسیجن کی زائد کثافت (Concentration) نے یقیناًامائنو ایسڈ کی تشکیل روک دی ہوگی۔ اس طرح مذکورہ کیفیت، ملر کے تجربے کے خلاف جاتی ہے، اور اسی کو ملر نے نظر انداز کردیا تھا۔ اگر وہ اپنے تجربے میں آکسیجن بھی استعمال کرلیتا تو میتھین لامحالہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات میں، جبکہ امونیا یقیناًنائٹروجن اور آبی بخارات میں ٹوٹ جاتی۔
دوسری جانب، کیونکہ اُس وقت اوزون کی کوئی حفاظتی تہہ (کرۂ ہوائی پر) موجود نہیں تھی لہٰذا سورج سے آنے والی زبردست بالائے بنفشی شعاعوں کے سامنے زمین پر کسی بھی نامیاتی سالمے کا باقی بچنا ممکن ہی نہیں تھا۔
* زندگی کے لئے چند ضروری امائنو ایسڈز بننے کے علاوہ، ملر کے تجربے میں کئی نامیاتی تیزاب (Organic Acids) بھی حاصل ہوئے تھے جن کی خصوصیات جاندار اشیاء کی ساخت اور کاموں کے لئے سخت مضر ہیں۔ اگر ملر ان امائنو ایسڈز کو بننے کے فوراً بعد ہی علیحدہ نہ کرتا اور اسی ماحول میں چھوڑ دیتا تو ان تیزابات کے ساتھ کیمیائی تعاملات کے نتیجے میں ان امائنو ایسڈز کو ٹوٹ پھوٹ اور تباہی سے بچانا قطعاً ناممکن ہوتا۔ مزید یہ کہ دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز بھی خاصی بڑی مقدار میں بنے تھے ۔ ان کی موجودگی بھی نظریہ ارتقاء کو خود اپنی بنیاد پر ہی غلط ثابت کرتی ہے کیونکہ دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز تو جاندار اجسام بنانے کے قابل ہی نہیں۔۔۔ اور اگر وہ غلطی سے کسی پروٹین میں شامل بھی ہوجائیں تو اسے پوری طرح ناکارہ کرڈالتے ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ وہ حالات، جن کے تحت ملر کے تجربے میں امائنو ایسڈز کی تشکیل ہوئی تھی، زندگی کو وجود بخشنے کے لئے قطعاً موزوں نہیں تھے۔ پھر جس واسطے (Medium) میں وہ بنے تھے، ایک تیزابی آمیزہ تھا جس نے حاصل ہونے والے کسی بھی ممکنہ کارآمد سالمے کی تکسید (Oxidation) کرکے اسے تباہ کر ڈالا ہوگا۔
ملر کے تجربے کو ’’ثبوت‘‘ کی حیثیت سے پیش کرکے ارتقائی ماہرین دراصل خود ہی نظریہ ارتقاء سے انکار کا جواز فراہم کرتے ہیں، لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس جواز کو وہ خود تسلیم نہیں کرتے۔ اگر یہ تجربہ کچھ ثابت بھی کرتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ امائنو ایسڈز، تجربہ گاہ کے ’’قابو کئے ہوئے‘‘ (Controlled) ماحول میں ہی تشکیل دیئے جاسکتے ہیں۔۔۔ ایک ایسا ماحول جس میں تمام ضروری کیفیات بڑی خصوصیت کے ساتھ، بہت سوچ سمجھ کر مہیا کی گئی ہوں۔ گویا اس تجربے سے ثابت ہورہا ہے کہ زندگی (یا ’’زندگی سے قریب تر‘‘ امائنو ایسڈز) کو وجود بخشنے والی چیز کوئی غیر شعوری ’’اتفاق‘‘ (Chance) نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ یہ شعوری (اور سوچی سمجھی) خواہش کا نتیجہ تھی جسے صرف ’’تخلیق‘‘ (یعنی ’’خالق‘‘ کی مرہونِ منت) ہی کہا (اور سمجھا) جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیق کا ہر مرحلہ، اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس ذات کی قدرت و اختیار کی کھلی ہوئی نشانی ثابت ہوتا ہے۔
معجزاتی سالمہ : ڈی این اے
اب ہم پر یہ انکشاف ہوچکا ہے کہ نظریہ ارتقاء کسی خلئے کی اساس بننے والے متعددو متنوع سالمات تک کی معقول وضاحت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ مزید برآں، جینیات (genetics) کی آمد اور نیوکلیائی ترشوں (Nucleic Acids)، یعنی ڈی این اے اور آر این اے کی دریافت نے نظریہ ارتقاء کے لئے مزید نئی مشکلات پیدا کردی ہیں۔
1953ء میں ڈی این اے (DNA) پر جیمز واٹسن اور فرانسس کرک کی تحقیق نے حیاتیات کے میدان میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ کئی سائنسدانوں نے اپنی توجہ جینیات پر مبذول کرلی۔ آج، برسہا برس کی تحقیق کے بعد، سائنس داں ڈی این اے کی ساخت کی خاصی بڑی حد تک نقشہ کشی کرچکے ہیں۔ (اس کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے گلوبل سائنس، شمارہ جولائی 2000ء بعنوان ’’جینوم اسپیشل‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔)
آئیے، اس موقع پر ڈی این اے کی ساخت اور کام کے بارے میں بنیادی معلومات کا خلاصہ کرتے ہیں:
ڈی این اے کہلانے والا عظیم و جسیم سالمہ انسانی جسم کے کھربوں خلیات میں سے تقریباً ہر خلئے کے مرکزے (Nucleus) میں موجود ہوتا ہے۔ اسی میں انسانی جسم کی ساخت سے لے کر چھوٹی بڑی تمام خصوصیات کے بارے میں تفصیلی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ان پوشیدہ معلومات کو محفوظ کرنے کے لئے خصوصی ’’رموزی نظام‘‘(Encoding System) استعمال ہوتا ہے۔ ڈی این اے میں تمام تر جینیاتی معلومات، چار خصوصی سالمات کی ترتیب کی شکل میں ہوتی ہیں۔ ان سالمات کو مختصراً G,T,Aاور Cکے انگریزی حروفِ تہجی سے ظاہر کیا جاتا ہے، جو ان کے ناموں کے ابتدائی حروف بھی ہیں۔ مختلف انسانوں میں خدوخال یا دوسری خصوصیات کا فرق انہی چاروں ’’جینیاتی اساس‘‘ (Genetic Bases) کی ترتیب میں معمولی سے رد و بدل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم انسانی جسم کو جینیاتی اساسوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب سمجھیں تو اس کتاب میں کم و بیش سوا تین ارب (3,250,000,000) حروف تہجی ہوں گے۔
کسی خاص عضو یا پروٹین کی تشکیل کرنے والی جینیاتی معلومات ڈی این اے کے جس خصوصی حصے میں ہوتی ہیں اسے ’’جین‘‘ (Gene) کہا جاتا ہے۔ مثلاً آنکھ کی تشکیل کے بارے میں معلومات، کئی جینز پر مشتمل ایک سلسلے میں موجود ہوتی ہیں، جبکہ دل کی ساخت اور کام وغیرہ کی ساری تفصیلات کے لئے جینز کا ایک اور سلسلہ مخصوص ہوتا ہے۔ خلیہ، پروٹین کی تیاری کے لئے انہی جینز سے حاصل ہونے والی معلومات استعمال کرتا ہے۔ تین جینیاتی اساس مل کر ایک امائنو ایسڈ بنانے کا ’’حکم‘‘ تشکیل دیتے ہیں۔ (تفصیلات کے لئے: ’’یہ جو زندگی کی کتاب ہے‘‘۔ شمارہ جولائی 2000ء (جینوم اسپیشل)، صفحہ نمبر 38 تا 40)۔
اس موقع پر بعض تفصیلات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جین بنانے والے جینیاتی اساسوں کے (جنہیں نیو کلیوٹائیڈ کے متبادل نام سے بھی پکارا جاتا ہے) سلسلے میں ہونے والی صرف ایک غلطی بھی اس جین کو خراب یا ناکارہ کرسکتی ہے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ انسانی جسم میں لگ بھگ دو لاکھ جین ہوتے ہیں تو مزید واضح ہوجاتا ہے کہ لاکھوں نیوکلیوٹائیڈز کا ’’حادثاتی طور پر‘‘ باہم مل، صحیح تسلسل کے ساتھ آپس میں مربوط ہوکر، کارآمد جین در جین بنانا کس قدر ناممکن ہے۔ ارتقائی حیاتیات داں، فرینک سالسبری اسی نکتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ایک درمیانے پروٹین میں تقریباً 300 امائنو ایسڈز ہوسکتے ہیں۔ اسے کنٹرول کرنے والے ڈی این اے میں تقریباً 1000 نیوکلیوٹائیڈ (جینیاتی اساس) موجود ہوں گے۔ کیونکہ ڈی این اے کی زنجیر میں چار طرح کے نیوکلیوٹائیڈز ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے 1000 یونٹوں والی زنجیر میں یہ 41000 ممکنہ ترتیبوں میں پائے جاسکتے ہیں۔ تھوڑا سا حساب ہمیں بتاتا ہے کہ
10600 = 41000
یعنی 10 کو 600 مرتبہ اپنے آپ سے ضرب دینے پر ہمیں جو حاصل ضرب ملے گا، وہی یہ رقم ہوگی جس میں 1 کے بعد 600 صفر لگے ہوں گے‘‘۔
اب ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ 1 کے بعد 11 صفر لگانے پر ہمیں ’’ایک کھرب‘‘ او ر1 کے بعد 13 صفر لگا کر ’’ایک پدم‘‘ جیسے عظیم اعداد حاصل ہوتے ہیں جہاں ہماری گنتی کے پیمانے بھی جواب دے جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ 1 کے بعد 600صفر والے کسی عدد کے سامنے ہماری اپنی قوت بیان بھی کتنی ناکافی محسوس ہوتی ہے؟ اس معاملے میں ارتقائی ماہر، پروفیسر علی دیمر سوئے تک یہ کہنے پر مجبور ہوگئے :
’’کسی پروٹین اور نیوکلیئک ایسڈ (ڈی این اے یا آر این اے) کے اتفاقاً تشکیل پانے کے امکانات درحقیقت ناقابلِ فہم حد تک کم ہیں۔ پھر کسی مخصوص پروٹینی زنجیر کی ارتقاء پذیری کے امکانات تو اس سے بھی کہیں کم تر ہیں‘‘۔
ان تمام ناممکنات کے علاوہ، ڈی این اے اپنی دوہری چکردار زنجیر جیسی ساخت کے باعث حیاتیاتی تعاملات میں براہِ راست حصہ نہیں لے سکتا۔ لہٰذا اسے زندگی کی ارتقائی بنیاد سمجھنا بھی ناممکن ہے۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈی این اے، بعض خامروں (Enzymes) کی مدد سے اپنی نقلیں تیار کرنے کے قابل ہوتا ہے جبکہ خامرے بذاتِ خود انہی احکامات کے نتیجے میں بنتے ہیں جو ’’جینیاتی رموز‘‘ (Genetic Codes) کی شکل میں، ڈی این اے کے اپنے اندر محفوظ ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ڈی این اے اور خامرے، دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اب یا تو یہ دونوں ایک ساتھ ہی وجود میں آئے تھے یا پھر ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے ’’تخلیق‘‘ کیا گیا تھا۔ خرد حیاتیات (Microbiology) کے امریکی ماہر جیکب سن اس کیفیت پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں :
’’نسل خیزی، دستیاب ماحول سے توانائی اور (درکار) اجزاء کا حصول، سلسلوں کی افزائش، اور احکامات کو افزائش میں بدلنے والے اثر پذیر نظام کے لئے ساری اور مکمل ہدایات کو اُس وقت (جب زندگی کی ابتداء ہوئی) ایک ساتھ موجود ہونا چاہئے تھا۔ ان واقعات کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا اس قدر ناممکن ہے کہ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے، اور اکثر کسی خدائی مداخلت کا مرہونِ منت ہی سمجھا جاسکتا ہے‘‘۔
مذکورہ بالا عبارت، ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے صرف دو سال بعد تحریر کی گئی تھی۔ بعدازاں سائنس میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود یہ عقدہ آج بھی ارتقاء پرستوں کے لئے لاینحل بنا ہوا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ نسل خیزی (تولید) میں ڈی این اے کی ضرورت، اس عمل میں بعض پروٹینز (خامروں) کی لازمی موجودگی، اور ڈی این اے میں موجود ہدایات کی مطابقت میں ان پروٹینز کے استعمال ہونے جیسی ضروریات، ارتقائی نظریات کا ہوائی محل ڈھانے کے لئے کافی ہیں۔
جنکر (Junker) اور شیرر (Scherer) نامی دو جرمن سائنس دانوں نے کیمیائی پیمانے پر ارتقاء کے لئے درکار تمام سالمات کی تشکیل کا عمل اور مختلف و متنوع کیفیات کی ضرورت بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان مادوں کا نہایت مختلف حالات کے تحت وجود پذیر ہوکر، کارآمد انداز میں یکجا ہونا ’’صفر‘‘ امکان کا حامل ہے:
’’اب تک ایسا کوئی تجربہ معلوم نہیں ہوسکا ہے جس کے ذریعے ہم کیمیائی ارتقاء کے لئے درکار تمام ضروری سالمات حاصل کرسکیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے مختلف الاقسام سالمات انتہائی موزوں حالات کے تحت مختلف مقامات پر بنائے جائیں اور پھر انہیں ضرر رساں عوامل مثلاً آب پاشیدگی (hydrolysis) اور ضیاء پاشیدگی (Photolysis) وغیرہ سے بچاتے ہوئے، باہمی تعامل کے لئے ایک جگہ پر جمع کیا جائے‘‘۔
یعنی نظریہ ارتقاء ان ارتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہے جو مبینہ طور پر سالماتی سطح پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
اب تک جو کچھ بھی ہم نے کہا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امائنو ایسڈز اور ان کی حاصلات (Products) سے لے کر جانداروں کے خلیات بنانے والے پروٹینز تک، کچھ بھی زمین کے نام نہاد ’’ابتدائی ماحول‘‘ میں ہرگز (ازخود) نہیں بن سکتا تھا۔ علاوہ ازیں دوسرے عوامل جیسے کہ پروٹینز کی نہایت پیچیدہ ساخت، ان کی دائیں یا بائیں ہاتھ والی ساخت، پیپٹائڈ بند بننے کی مشکلات وغیرہ، یہ سب اس ایک سبب کے مختلف اجزاء ہیں جو یہ تعین کرتا ہے کہ نہ تو زمین کے ابتدائی ماحول میں ان کا ’’اتفاق‘‘ سے بننا ممکن تھا اور نہ ہی انہیں مستقبل کے کسی تجربے میں حاصل ہی کیا جاسکے گا۔
اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ پروٹین حادثاتی طور پر کسی طرح سے بن گئے تھے تب بھی ان کی تشکیل بے معنی ہوگی۔ پروٹینز میں اپنی افزائش (reproduction) کی قطعاً کوئی صلاحیت نہیں۔ پروٹین تو صرف ڈی این اے اور آر این اے جیسے سالمات میں پوشیدہ معلومات کی مطابقت میں بنتے ہیں۔ یعنی پروٹینز کی افزائش، ڈی این اے اور آر این اے کے بغیر ناممکن ہے۔ ڈی این اے کے رموز ہی یہ تعین کرتے ہیں کہ ہر پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کی ترتیب کیا ہوگی۔ مگر وہ تمام لوگ جو اب تک ان سالمات کا مطالعہ کر چکے ہیں، انہوں نے ہی بڑے پیمانے پر یہ واضح کردیا ہے کہ ڈی این اے اور آر این اے کا اتفاقاً بن جانا قطعاً ناممکن ہے۔
تخلیق : ایک اٹل حقیقت
ہر میدان میں ارتقاء کو شکست فاش ہوجانے کے بعد خردحیاتیات (مائیکرو بائیالوجی) کے معتبر ماہرین آج ’’تخلیق‘‘ (Creation)کو حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ (ایسے ہی چند لوگوں نے) اب اس نقطۂ نظر کا بھرپور دفاع کرنا شروع کردیا ہے کہ ہر شے ایک عظیم ترین خالق نے ’’تخلیق‘‘ کی ہے اور یہ کہ ہر شے اپنی جگہ پر خالقِ عظیم کی عظیم تر تخلیق کا ایک جزو ہے۔ اس حقیقت کو پہلے ہی سے بہت سے لوگ تسلیم کرتے ہیں۔ کھلے ذہن سے اپنی تحقیقی کاوشوں کا تجزیہ کرنے والے سائنس دان اس نقطۂ نظر کو ’’ذہین ڈیزائن‘‘ (Intelligent Design) کا نام دیتے ہیں۔ مائیکل جے بیہے (Michael J. Behe) جو اِن سائنس دانوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں، یہ بتاتے ہیں کہ وہ خالقِ حقیقی اور قادرِ مطلق کا وجود تسلیم کرتے ہیں اور یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ خدا کے وجود سے انکار کرنے والے کیا وطیرہ اختیار کرتے ہیں :
’’سالماتی سطح پر زندگی کی، اور خلئے کی تفتیش کے لئے ہونے والی پے در پے کوششوں کا نتیجہ ایک بلند آہنگ، واضح اور ناقابلِ تردید پکار ’’ڈیزائن‘‘ ہے۔ یہ نتیجہ اس قدر غیر مبہم اور اتنا مؤثر ہے کہ اسے سائنس کی تاریخ میں لامحالہ ایک عظیم ترین کامیابی کے درجہ ملنا چاہئے۔ سائنس کی اس فتح پر ہزاروں لوگوں کو ’’یوریکا‘‘ کے نعرہ ہائے تحسین بلند کرنے چاہیے تھے۔
لیکن، خوشی کے جام نہیں لنڈھائے گئے، داد کے لئے کوئی ہاتھ نہیں اٹھا۔ اس کے بجائے ایک متجسس، خجالت آمیز خاموشی نے خلئے کی بے پایاں پیچیدگی کو گھیر لیا۔ جب یہ موضوع عوام کے سامنے آتا ہے تو پہلو بدلتے ہیں اور سانسیں بے ترتیب ہوجاتی ہیں۔ خلوت میں لوگ قدرے پرسکون ہوتے ہیں، وہ اسے بظاہر تسلیم بھی کرلیتے ہیں لیکن پھر زمین کی طرف دیکھتے ہیں، اپنے سروں کو جنبش دیتے ہیں، اور اسی طرح ہونے دیتے ہیں۔ آخر سائنسی برادری اس زبردست دریافت کو آگے بڑھ کر گلے کیوں نہیں لگاتی؟ آخر ڈیزائن (والے نظریئے) کا مشاہدہ، دانشورانہ دستانوں میں ہی کیو ں سنبھالا جارہا ہے؟ غور طلب بات یہ ہے کہ جس حقیقت کے ایک رخ پر ’’ذہین ڈیزائن‘‘ کا لیبل لگا ہے، اس کے دوسرے رُخ پر ’’خدا‘‘ کی عبارت لگانا لازمی ہے‘‘۔
آج بہت سے لوگ اللہ پر ایمان رکھنے کے بجائے جانے بوچھے بغیر، سائنس کے نام پر جھوٹ کے ایک پلندے کو سچ سمجھ کر قبول کررہے ہیں۔ وہ جو ’’اللہ نے تمہیں عدم سے تخلیق کیا‘‘ سے نابلد ہیں، اتنے سائنسی ہیں کہ وہ اربوں سال پہلے کے ’’ابتدائی شوربے‘‘ (Primordial Soup) پر بجلی گر کر پہلے جاندار کے وجود میں آنے کا مفروضہ من و عن درست تسلیم کرلیتے ہیں۔
نظامِ قدرت میں اتنے نازک اور اتنے زیادہ توازن ہیں کہ انہیں کسی ’’اتفاق‘‘ کا حاصل قرار دینا کھلی نا معقولیت ہوگا۔ وہ لوگ جو اپنے اذہان کو معقولیت دشمنی سے آزاد نہیں کراسکتے، وہ کتنا ہی اصرار کیوں نہ کرلیں، مگر زمین اور آسمان میں اللہ کی نشانیاں اتنی زیادہ نمایاں ہیں کہ ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اللہ تعالیٰ زمین کا، آسمان کا اور ان کے درمیان ہر شے کا خالق ہے۔ اس کے وجود پر دلالت کرنے والی نشانیاں ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔