ڈارون ازم یہ دلائل پیش کرتے ہوئے کہ زندگی اور تمام کائنات ایک اتفاقیہ حادثے کا نتیجہ ہے، ہمیں درپیش سب سے خطرناک نظریہ ہے۔ اس نے تمام نقصان دہ تحریکوں جن میں مادیت پرستی Materialism اور فسطائیت Fascism بھی شامل ہیں، کے لئے بنیادی تراش خراش فراہم کی جو انسانیت کی بربادی کا سبب بنتی رہیں۔ ابھی بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو اس کی بار بار سائنسی تردید کے، اسے صرف نظریاتی وجوہ کی وجہ سے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ جب ڈارون ازم کی بات آتی ہے تو اس کے متعلق کم علم رکھنا خطرناک ہے۔ لوگ جو حالاتی حقائق یا تنقیدی تحقیق سے لیس ہو کر مباحثہ چاہتے ہیں۔ درحقیقت اس کے اصل خطرے سے بے خبر ہیں جو یہ بیان کرتاہے، ہولناک معاشرتی اور اخلاقی آفتوں سے بے خبر ہیں جو نظریہ ارتقاء اپنے ساتھ لایا ہے۔ اس انتقام سے بے خبر ہیں جو ڈارونسٹ سوچ ڈیڑھ سو سال سے تباہ کاریوں کی صورت میں لے رہی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اس کے خلاف ہونے والی عقلی اور شعوری کوششوں پر بھی نظر ڈالیں۔ خدا کے وجود، واحدانیت اور ہر مرد اور عورت کا اﷲ کے سامنے جوابدہ ہونے کا انکار کرتے ہوئے ڈارون ازم لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور ڈال کر تباہی اور بربادی کی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ انسان ایک غیر ذمہ دار محض اتفاقیہ پیداوار ہے اور جاندار کی ایک نوع سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ڈارون ازم اور اس کے ہم نوا ساتھی فلسفیہ مادہ پرستی کے زیر تسلط پرورش پانے والی ان کی سب سے زیادہ واضح میراث اس بنیادی سوال کہ انسان کیا ہے؟ کو انتہاپسندانہ انداز سے پیش کر کے منح کرتی ہے۔ کچھ لوگ جو اس سے پہلے اس کا جواب یہ دیتے تھے کہ ’’انسان وہ مخلوق ہے جسے اﷲ نے بنایا ہے تاکہ وہ ان اخلاقی اقدار کے مطابق جو اﷲ نے بیان کیں ہیں۔ اپنی زندگی گزاریں۔‘‘اب اس گمراہ کن انڈوکٹرئی نیشن Indoctrination کے نتیجے میں اس غلط سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ ’’انسان ایک اتفاقیہ حادثہ سے وجود میں آیا اور وہ مخلوق ہے جو بقاء کی جدوجہد میں سے ترقی کر کے سامنے آئی۔‘‘ سوچ میں ایسی بڑی غلطی کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ایسی سوچ سے بے رحم نظریات جیسے نسل پرستی، فسطائیت یا مادہ پرستی اور تمام دنیا کے متعلق فسادی نظریات پرورش پاتے ہیں۔ ڈارونسٹ سوچ تمام نقصان دہ نظریات کی جڑ ہے: مجموعی طور پر بیسویں صدی کی تاریخ جانچی جائے تو اس میں ہونے والی جنگوں، تصادموں، لاقانونیت، ہنگامہ آرائی، افراتفری اور لوگوں پر کی جانے والی یہ وحشت ناک اذیت۔ یہ سب ڈارون ازم کے تباہ کن نتائج سے آگاہ ہونے کے لئے کافی ہیں۔ پچھلی صدی میں لاکھوں لوگوں کا قتل ہوا، کشت و خون کیا گیا، فاقہ کشی اور مرنے کے لئے بے یارو مددگار، گھروں سے بے دخل چھوڑ دیا گیااور لوگوں سے غفلت کا برتاؤ بھی انہی گمراہ کن نظریات کی وجہ سے کیا گیا جن کا کچھ بھی مقصد نہیں تھا۔ مزید لاکھوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا جو جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ بے رحم آمر حکمرانوں جن کی ذہنیت ڈارونسٹ تھی، نے عوام الناس کو تصادموں میں الجھائے رکھا، بھائی کو بھائی کے خلاف کر دیا، جنگ و جدل کو ہوا دی اور بمباری کو شروع کروایا۔ اور ناسمجھوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دے کے بے شمار مردوں اور عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کی اموات کا سبب بنے۔ فسطائیت اور مادہ پرستی ایسے نظریات کی فہرست کے سردار ہیں جنہوں نے انسانیت پر اپنی کالی پرچھائیاں ڈال رکھی ہیں۔ ظاہری طور پر یہ مکمل ایک دوسرے کے متضاد ہیں جو ایک دوسرے کو تباہ کرنے کے ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب نظریات ایک مشترک عقلی ماخذ سے پرورش اور طاقت حاصل کرتے ہیں۔ یہ مادہ پرست فلسفہ کا قدرتی سائنس کا انداز ڈارون ازم ہے جو عوام الناس کو اس طور متوجہ کرنے کی خدمات پیش کرتا ہے۔ جب نظریہ ارتقاء پہلی بار پیش کیا گیا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد یہ علم الحیات اور پلینٹولوجی Paleontology یعنی آثار متحجر کا مطالعہ جس میں پتھریلی پرتوں Rock Strata سے مختلف جانوروں اور پودوں کی ساخت، ارتقائی عمل، عمر اور حالات کی شہادت ملتی ہے کے دائرہ کار سے وسعت اختیار کر گیا اور پھر یہ اپنا اثرورسوخ انسانی تعلقات سے لے کر تاریخ کی جانچ پڑتال، سیاست سے لے کر معاشرے کو چلانے والی قوتوں جیسے دوسرے میدانوں تک بڑھانے کی کوششوں میں لگ گیا۔ خاص طور پر ڈارونسٹ جھوٹ کہ ’’نیچر Nature کوشش اور تصادم کا میدان جنگ ہے‘‘ معاشرے پر نافذ کیا گیا تو اس سے ہٹلر Hitler کی ماسٹر ریس پرورجن یعنی اپنی نسل کو سب سے اعلیٰ خیال کر کے ملاوٹ سے بچانا کو مفروضاتی سائنسی بھیس ملا، مارکس Marx کی غلطی کے انسان کی تاریخ ماسوائے ’’طبقاتی تصادم‘‘ کے اور کچھ بھی نہیں، سرمایہ دارانہ Capitalist رائے کہ ’’طاقتور کمزور کو دبا کر اور طاقتور ہو سکتا ہے‘‘، سامراجی اقوام کے ہاتھوں تیسری دنیا کا ہونے والا بے رحم استحصال اور نسل پرستی کے نام پر ہونے والے حملوں اور تذلیل کا دوسرے رنگوں والے لوگوں کو آج بھی سامنا ہے وہ لوگ جو انسانوں کو محض جانوروں کی دنیا کا ایک ترقی یافتہ نوع تصور کرتے تھے، نے اپنا رتبہ و مقام بڑھانے کی خاطر دوسروں کو روندنے یا ذلت سے دو چار کرنے میں کبھی کوئی سستی نہیں دیکھائی، نہ ہی علیل اور کمزور کو ختم کرنے میں، یا ان نسلوں کا کشت و خون کرنے میں جنہیں وہ مختلف اور کم تر تصور کرتے کیونکہ ان کے نظریات اپنے سائنسی لبادے میں انہیں یہ بتاتے تھے کہ ایسا کرنا ’’قانون فطرت ہے‘‘۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ڈارون ازم نے معاشرتی ایذا پہنچا کر انسانیت کو حبس دہشت ناک آفت میں مبتلا کیا ہے۔ اس سے بہت سے لوگ بے خبر ہیں۔ نظریہ ارتقائجو کسی بھی سائنسی ثبوت سے محروم ہے اور ماسوائے ایک متروک شدہ قاعدہ کے کچھ بھی نہیں، اسے آج بھی بنا سوچے سمجھے صرف بے دینی اور کفر کے فروغ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ اس کی پشت پناہی کیلئے سائنسی تحقیقات اور معلومات بھی نہیں ہیں۔ شعوری اور عقلی طریقے سے ڈارون ازم کو ختم کرنے سے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کیا جا سکتا ہے: ہر کوئی جانتا ہے دہشت گردی کا خوف کیا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کہ اس کی نظریاتی بنیاد ڈارون ازم ہے۔ واضح جھوٹ کہ ’’انسان ایک لڑتا ہوا جانور ہے‘‘۔ ڈارون ازم کے ذریعے لوگوں کے لاشعوری اذہان میں زبردستی ڈالا گیا، جو کہ بہت ذی اثر رہا ہے۔ ڈارون ازم دنیا کا نظریہ اور اس کا طریقہ دیتا ہے اس دنیا کے نظریے اور طریقے پیچھے بنیادی تصور یہ ہے کہ ’’ہر کسی سے تصادم کرو جو تمہارا اپنا نہیں ہے‘‘۔ یہ ایسے بھی سمجھایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں مختلف ایمان، دنیا کے نظریات اور فلسفے ہیں جو مندرجہ ذیل دو طریقوں سے دیکھے جا سکتے ہیں: 1۔ کہ اس کے ماننے والے دوسروں کے وجود کا لحاظ رکھ سکتے ہیں اور دوسروں سے بات چیت کے ذرائع تلاش کر سکتے ہیں اور ان کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھ سکتے ہیں۔ 2۔ متبادل یہ کہ ماننے والے دوسروں کے ساتھ تصادم کے راستے کو ترجیح دے سکتے ہیں، اپنے فائدے کی خاطر دوسروں کو ایذا پہنچا سکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں ’’جانوروں جیسا‘‘ برتاؤ کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا خوف دوسرے نکتے کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس لئے دہشت کے سیاق و سباق کے لحاظ سے ایسا کیے جانے کی ضرورت ہے جس سے اس دہشت کی بنیادی بنیادیں ختم کی جا سکیں۔ دوسرے الفاظ میں ڈارون ازم کے خلاف عقلی اور شعوری جدوجہد کی تکمیل۔۔ ایک دفعہ ڈارون ازم شعوری طور پر جڑ سے اکھاڑ دی گئی تو دہشت گرد تنظیمیں ڈھیر ہو جائیں گئیں اور دہشت گردی کا خوف اپنی موت آپ مر جائے گا۔ بہرکیف جب تک ڈارون ازم کو زندہ رکھنے کی کوششیں جاری رہیں گیں تب تک لوگوں کے اذہان میں ڈارونسٹ جھوٹ دالا جاتا رہے گا اور اس دہشت کو کبھی ختم نہیں کیاجا سکے گا۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ جب تک سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ڈارون ازم کا تسلط ہو گا تو جوان لوگ دہشت گردوں کے ساتھ ہی جا کر شامل ہوں گے۔ ایک شخص کو دہشت گرد بننے کے لئے پہلے اس بات پر یقین رکھنا ہو گا کہ اس کا نشانہ انسان نہیں ہیں بلکہ تصادم تو قانون فطرت ہے، مارنا اور قتل و غارت گری کرنا قانونی ہے اور یہ کہ وہ اﷲ کو جواب دہ نہیں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہیں ڈارونسٹ ہونا ہو گا۔ کوئی جو سالوں سے یہی سوچتا آیا ہو کہ ایٹم غیرارادی طور پر خود ہی ایک دوسرے سے جوڑ گئے اور زندگی کو تشکیل دے گئے اور یہ کہ ترقی تصادم کے بغیر ناممکن ہے، ایسے شخص سے ’’پیار! رواداری، رحم یا خداپرستی اور امن‘‘ کی بات سمجھانے کا کوئی جواز نہیں۔ نہ ہی یہ سوال کرنا کہ معصوم لوگوں کا بے رحمی سے خون کر کے کیا اچھا کرتے ہو؟ ایسے لوگوں سے توقع رکھنا کہ وہ ایسے غلط قوانین پر عمل کرتے ہوئے ریاستی حقوق و فرائض کی پاسداری کریں گے، بے معنی ہو گا۔ دہشت کے خلاف جنگ اگر ڈارون ازم کے خلاف شعوری جدوجہد سے خالی ہو تو اس کا فائدہ کیچڑ سے مچھر اڑانے سے کچھ زیادہ نہیں۔ ان مضر مشقوں اور کاموں کے خاتمے کا واحد راستہ اس ناک میں دم کر دینے والے مچھروں کو پیدا کرنے والے جوہڑ کو خشک کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں ڈارون ازم کے خلاف جرأت اور عقل و دانش سے آگے بڑھنا چاہیے۔ عظیم شعوری جدوجہد نظرانداز نہیں ہونی چاہیے: وہ حقائق جن کا ہم نے مختصر ذکر یہاں پر کیا ہے صاف طور پر ڈارون ازم سے پیدا ہونے والے شدید خطرے کو واضح کرتے ہیں جس سے اس کے خلاف کی جانے والی شعوری جدوجہد کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ لوگ ڈارون ازم کے خلاف اس عقلی جدوجہد کی کوشش کا یہ جھوٹی منطق پیش کرتے ہوئے غلط اندازہ لگاتے ہیں کہ ’’ڈارون ازم کی اہمیت ہی کیا ہے؟‘‘ یا ’’کوئی بھی اب ڈارون ازم پر یقین نہیں رکھتا اس لیے اس کے متعلق زحمت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ ایسے اعتراضات اپنے نتیجتاً اثر میں ڈارون ازم کے خلاف تحریک چلانے والے مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ یہ اور اس جیسے دعوے مل کر بڑا عذر ترتیب دیتے ہیں تاکہ شعوری و عقلی جدوجہد میں حصہ لینے سے چھٹکارا مل جائے۔ اس بات کی مختلف وجوہات ہیں کہ اس فرض سے سبکدوشی حاصل کرنے کی سوچ کیوں پیدا ہوتی ہے۔ جن میں سب سے پہلے ڈارون ازم کے متعلق کم معلومات ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والا عجیب قسم کا خوف ہے۔ وہ لوگ جو یہ قیاس کرتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء سائنسی ثبوتوں کی بنیاد پر کھڑا ہے یہ تصور بھی کر سکتے ہیں کہ ڈارون ازم کے خلاف لڑنے کا مطلب درحقیقت سائنس کے خلاف لڑنا ہے۔ جیسا کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ سائنس ارتقاء کے عمل کو ثابت کرتی ہے تو وہ یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اس مضمون میں دلچسپی لینی شروع کی تو وہ اس کی سوچ سے متاثر ہو جائیں گے۔ جس سے ان کیاپنے ایمان کمزور ہوں گے اور ان کے دنیا کے متعلق نظریات بدل جائیں گے۔ ایسے خطرات بے بنیاد ہیں۔ ارتقاء ایک غیرسائنسی نظریہ ہے۔ پچھلے پچاس سالوں میں سائنس کی ہر شاخ میں ہونے والی ہر نئی دریافت نے یہ ثابت کیا ہے کہ ارتقاء کا عمل بناوٹی ہے اور یہ کہ تخلیق ایک واضح سچ ہے۔ سائنس نے جو سچ آشکار کیا ہے اس کے مطابق اﷲ نے کائنات کو اپنے حکم سے تخلیق کیا اور یہ کہ نظریہ ارتقاء کی کوئی بھی سائنسی قدروقیمت نہیں ہے۔ وہ لوگ جو ڈارون ازم کی سائنس کے ہاتھوں شکست سے ناواقف ہیں، بہت سی غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ کرتے ہیں کہ اسلام اور ڈارون ازم میں موافقت کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسا کہ وہ سوچتے ہیں کہ مزاحمت کرنا لاحاصل ہے تو وہ خطرے کو بے اثر کرنے کے لئے اپنی ’’درمیانی راہ‘‘ کی تاویل پیش کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ بہرکیف اسے اپنانا ایک بہت خطرناک اور غلط طریقہ ہے۔ سب سے پہلی اور نمایاں بات جو ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں وہ یہ کہ نظریہ ارتقاء پہلے ہی غلط ثابت ہو چکا ہے اور دوسرا کوئی ایک بھی حوالہ قرآن سے ارتقاء کے امر کو ظاہر کرتا ہوا نہیں دیا جا سکتا، برعکس اس کے جو دعویٰ کیا جاتا ہے، بلکہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اس نے (اﷲ تعالیٰ) نے زندگی اور تمام کائنات کو صرف یہ حکم دیتے ہوئے تخلیق کیا کہ ’’ہو جا (اور وہ ہو گیا)‘‘۔ اس لیے آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ ڈارون ازم کے خلاف شعوری و عقلی جدوجہد سے کنارہ کشی اختیار کرنے یا ’’اسلامک ارتقاء‘‘ جیسی تصوراتی باتیں پیش کرنے کی بجائے، اپنے آپ کو ضرور اس مضمون کے بارے میں تعلیم یافتہ کریں اور اس عظیم عقلی جدوجہد کا ساتھ دیں۔ جبکہ اب تو علم حاصل کرنا بہت آسان ہو چکا ہے۔ یہ شعوری و عقلی جدوجہد وسیع پیمانے پر صف بندی کیے ہوئے ہے۔ اسے تمام ٹیکنالوجیکل ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے، تمام سائنسی پیش رفت، سائنسی ترقی سے ثابت ہونے والے حقائق کو جمع کرتے ہوئے اسے صاف اور واضح ثبوتوں کے ساتھ اختیار کرتے ہوئے پیش کیا جانا چاہیے۔ حالیہ دور میں یہ بات بہت عام ہو گئی ہے کہ بغیر کسی مناسب ثبوت اور معقول معلومات کے فراہم کیے یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ چند اعتراضات (مثلاً اگر انسان گوریلا بے دم بندر) کی نسل میں سے ہیں تو پھر ابھی بھی بے دم بندر کیوں ہیں اور وہ کیوں نہیں انسانوں میں بدل گئے؟ وغیرہ، کو دوہرا کر ڈرارون ازم کو شکست دی جا سکتی ہے لیکن ایسی سوچ اس معاملے کی گہرائی کے مطابق نامناسب غوروفکر رکھنے کی وجہ سے ناکافی اور نامرادی سے دو چار ہو جاتی ہے۔ ایک شخص جو مختلف ذرائع سے ڈارونسٹ پروپیگنڈا کا مستقل شکار رہا ہو وہ یقینی طور پر ان معمولی اعتراضات سے اپنی عادی کی ہوئی سوچ کو نہیں بدل سکتا۔ اسی وجہ سے وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ سائنس دراصل ارتقاء کو سہارا دیتی ہے، کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سائنس نے جو نتائج اخذ کیے ہیں ان سے ارتقاء غیر سائنسی ثابت ہوتا ہے۔ یہی بات ڈارون ازم کے خلاف چلائی جانے والی عقلی جدوجہد کی اصل روح ہے۔ ڈارون ازم کے خلاف عقلی جدوجہد یک جہتی کو دعوت دیتی ہے: اس کا حل جدوجہد کے موثر ہونے کے لئے یہ بات از حد ضروری ہے کہ مسلمان یک جان ہو کر کام کریں۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو اس امر کی ضرورت ہے کہ وہ منکرین کے خلاف ایک ہو کر جدوجہد کریں ایک آیت یہ بیان کرتی ہے کہ اگر مسلمان ایک ہو کر کام نہ کریں تو کیسے زمین پر بدافعالی چھا جاتی ہے۔ آیت: ’’اور جو لوگ کافر ہیں وہ باہم ایک دوسرے کے وارث ہیں اگر اس (حکم مذکور) پر عمل نہ کرو گے‘ تو دنیا میں بڑا فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا‘‘۔ (سورۃ 8: آیت 73، ترجمہ و تفسیر از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب) ایسے وقت میں جب بے دینی نے دنیا کے بیشتر حصوں پر اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں، جب لاقانونیت اور دہشت تمام انسانوں کو ڈراتی ہے، جب بہت سے بے یارومددگار اور معصوم لوگوں کو دبایا جا رہا ہے، ایسے میں سچے ایمان والوں کو چاہیے کہ اپنے طور پر تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے اس بے دینی کے خلاف عقلی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ اگر مسلمان آپس میں یک جہتی کرنے میں ناکام رہے، اور مختلف خطوط پر ہی سوچتے رہے تو ایسا ہونے سے اس عظیم عقلی جدوجہد کا اثر کم ہو جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اختلافات بھلا کر دینی اخلاقیات کی تشہیر کریں۔ تمام مسلمانوں کو ڈارون ازم کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تمام مسلمان ممالک کی معاشرتی تنظیمیں، انجمنیں، فاؤنڈیشنز اور سوسائٹیز کو ایک مشترکہ آگاہی کے تحت ڈارون ازم کے خلاف جدوجہد میں حصہ لینا چاہیے۔ اس بات کو خاطر میں لائے بغیر کہ کیا ان کی تنظیم کے آئین میں ڈارون ازم اور مادہ پرستی کے خلاف جدوجہد کرنا ہے بھی یا نہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کو ترک کر دیں جو ان کی فاؤنڈیشن، سوسائٹی یا تنظیم کا حصہ نہ ہوں اور نہ ہی ان خطوط پر سوچیں کہ ’’اگر ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں تو ہمیں اس دردسری میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ یہ نامناسب مسلمانوں کا رویہ ہے۔ ایسے حالات میں اگر ہم نے ڈارون ازم کے خلاف عقلی جدوجہد سے بھاگنے، مختلف قسم کی تاویلیں پیش کرنے، یک جہتی اور مل کر کام نہ کرنے پر ناکامی جیسے رویے اپنائے رکھے تو ہو سکتا ہے اس وجہ سے دنیا اور آخرت میں فرسودہ الزام ٹھہرائے جائیں یہ نہایت ضروری ہے کہ مخلص مسلمان اس فحش غلطی سے بچیں۔ اﷲکی رضا حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کی کفر کے خلاف تمام ذرائع سے اپنے اپنے طور پر کی جانے والی جدوجہد ضرور، اﷲ کی مرضی سے، تمام انسانیت کے لئے بہترین نتائج سامنے لائے گی۔ اتحاد اور ملی جذبے سے سرشار ہو کر کی جانے والی مخلص کوششیں ان اسباب کا ذریعہ بنتی ہیں جس سے ’’سچ فاتح ہو گا اور جھوٹ اپنی موت آپ مر جائے گا‘‘ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کیا جانے والا یہ وعدہ تمام ایمان والوں کے لئے جوش و خروش اور ولولے کا ماخذ ہے۔ آیت: بلکہ ہم حق بات کو باطل پر پھینک مارتے ہیں سو وہ (حق) اس (باطل) کا بھیجہ نکال دیتا ہے یعنی اس کو مغلوب کر دیتا ہے، سو وہ (مغلوب ہو کر) دفعتہ جاتا رہتا ہے اور تمہارے لیے اس بات سے بڑی خرابی ہو گی جو تم گھڑتے ہو۔ (سورۃ 21، آیت 18 ترجمہ و تفسیر از حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب)
آج کل کا جاری و ساری ڈارونسٹ مکروفریب: تحقیق بتاتی ہے کہ ڈارون ازم ابھی بھی فریب گری کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ یورپین ممالک، خاص طور پر فرانس، جرمنی اور برطانیہ میں کیے گئے سروے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ لوگوں کی بہت زیادہ تعداد یہ قیاس کرتی ہے کہ نظریہ ارتقاء سائنسی سچائی ہے۔ لوگ جو ارتقاء کے پنجہ جھوٹ میں پھنس جاتے ہیں وہ اﷲ پر یقین سے، اور مذہبی اخلاقیات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے کیے گئے سروے سے یہ امر بالکل واضح ہے۔ سروے کے مطابق صرف اٹھارہ فیصد یورپین یہ یقین رکھتے ہیں کہ اﷲ نے انسان کو بنایا، جبکہ بیاسی فیصد لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انسان دوسری نوع سے ارتقائی منازل طے کر کے بنا ہے۔ ملک در ملک صورت حال کچھ یوں ہے: جرمنی: کل آبادی کے صرف چودہ فیصد لوگ جن میں سے پینتیس فیصد کیتھولک اور چھتیس فیصد پروٹسٹنٹ ہیں، تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ فرانس: تقریباً اٹھارہ فیصد لوگ تخلیق کے سچ پر یقین رکھتے ہیں۔ برطانیہ: بیس فیصد لوگ تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ سپین: کیتھولک آبادی کی اکثریت کے باوجود، سپین میں صرف تیرہ فیصد لوگ تخلیق کی سچائی مانتے ہیں۔ ناروے:تخلیق کے ماننے والے آبادی کا انیس فیصد ہیں۔ فن لینڈ:اسی فیصد آبادی جو حضرت عیسیٰ کے واحد مسیحا اور نجات دہندہ ہونے کا یقین رکھتے ہیں، صرف سولہ فیصد تخلیق پر ایمان رکھتے ہیں۔ سویڈن: بارہ فیصد لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے انسان کو بنایا۔ ڈنمارک: آبادی کا نو فیصد حصہ لوگ تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ بیلجیم: دس فیصد لوگ تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔ سوئزرلینڈ: چوبیس فیصد لوگ تخلیق کی سچائی کو مانتے ہیں۔ یہ تصویر کشی ایک بار پھر اس بات کو سمجھانے کہ سائنسی شہادتیں ارتقاء کو غلط ثابت کرتی ہیں کی اہمیت اور فوری تعمیل طلبی کا اظہار کرتی ہے اور یہ کہ کیوں ڈارون ازم خیالی جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہ کہ سائنسی سچائی تخلیق کی طرف مثبت شواہد فراہم کرتی ہے۔