بارش کے بارے میں:سورۂ آلِ عمران (آیت 191) میں ہے’’(عقل مند لوگ) اللہ تعالی کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی، بیٹھے بھی، لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پیدا نہیں کیا۔ ہم آپ کو منزہ سمجھتے ہیں سو ہم کو عذابِ دوزخ سے بچا لیجئے۔‘‘ (آلِ عمران: 191) بارش بلاشبہ زمین پر زندگی کے لیے اہم ترین عناصر میں سے ہے۔ بارش زندگی کے وجود کے لیے لازمی شرط ہے۔ بارش جو بشمول انسان کے تمام جان داروں کے لیے نہایت اہم ہے، قرآن پاک کی کئی آیات میں اس کا ذکر ہے، جن میں بارش اس کے تناسب اور اثرات کے بارے میں کافی معلومات دی گئی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قرآن کے نزول کے وقت بارش کے بارے میں ایسی معلومات ناممکن تھیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔آیئے اب قرآن میں دی گئی( بارش کے بارے میں) معلومات کا جائزہ لیں۔ بارش کا تناسب:سورۃ الزخرف کی گیارھویں آیت میں بارش کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پانی ایک پیمائش کے مطابق بھیجا جاتا ہے۔’’اور جس نے آسمان سے پانی ایک اندازے سے برسایا۔ پھر ہم نے اُس سے خشک زمین کو( اس کے مناسب) زندہ کیا۔ اسی طرح تم (بھی اپنی قبروں سے) نکالے جاؤ گے‘‘(سورۃ الزخرف:11)۔مذکورہ آیت میں درج اس ایک اندازے یا پیمانے میں بارش کی کئی خوبیاں شامل ہیں۔ سب سے پہلے، زمین پر گرنے والی بارش کی مقدار ہمیشہ یکساں ہوتی ہے۔ تخمینہ یہ ہے کہ ایک سیکنڈ میں زمین سے 16 ملین ٹن پانی، بخارات بن کر اُڑتا ہے۔ یہ مقدار زمین پر ایک سیکنڈ میں آنے والے قطروں کی مقدار کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ایک اندازے کے مطابق پانی ایک متوازن چکر میں مسلسل گھومتا رہتا ہے۔ ایک اور اندازے کا تعلق بارش کے برسنے یا گرنے کی رفتار سے ہے۔ بارش بھرے بادل کی کم سے کم بلندی 1200 میٹر ہوتی ہے۔ اگر بارش کے قطرے کے وزن اور جسامت (سائز) کے برابر ایک جسم اسی بلندی سے گرے تو وہ زمین پر 558 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گرے گا۔ یقیناًاتنی رفتار سے گرنے والی کوئی چیز جب زمین سے ٹکرائے گی تو بڑے نقصان کا باعث بنے گی۔ اگر اسی طرح بارش برسے تو تمام کاشت شدہ زمینیں برباد ہوجائیں۔ رہائشی علاقے، مکانات اور کاریں تباہ ہوجائیں اور انسان ضروری ہدایات لیے بغیر باہر نہ نکل سکے۔ مزید یہ کہ یہ اعداد و شمار 1200 میٹر بلندی پرموجود بادلوں سے متعلق ہیں جبکہ ایسے برساتی بادل بھی ہیں جو سطح زمین سے دس ہزار میٹر کی بلندی پر ہیں۔ د س ہزار میٹر کی بلندی سے گرنے والے بارش کے ایک قطرے کی رفتار نہایت تباہ کن ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کتنی اونچائی سے گرا ہے ، بارش کے قطروں کی اوسط رفتار (جب وہ زمین تک پہنچتے ہیں) آٹھ سے دس کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ ان کی خاص بناوٹ ہے۔ قطروں کی یہ خاص بناوٹ فضا کی رگڑ کے اثر کو بڑھا دیتی ہے اور جب قطرہ ایک خاص رفتار کو پہنچتا ہے تو اس کی رفتار کو اس سے بڑھنے نہیں دیتی(آج اسی اصول کو استعمال کرتے ہوئے پیراشوٹ تیار کیے جاتے ہیں)۔ بارش کی بناوٹ ایک طویل عرصے سے لوگوں کے لیے عجوبہ رہی ہے۔ ہوائی راڈار (Air Radar) کی ایجاد کے بعد ہی یہ ممکن ہوسکا کہ بارش کے مراحل کو سمجھا جاسکے۔ بارش کی تشکیل کئی مراحل میں ہوتی ہے۔ اوّل، بارش کا ’’خام مال‘‘ (را میٹریل) ہوا میں اُٹھتا ہے۔ پھر بادل بنتے ہیں اور آخر میں بارش کے قطرے وجود میں آتے ہیں۔ یہ مراحل قرآن پاک میں بڑی وضاحت سے بیان کیے گئے اور صدیوں پہلے بارش کے بارے میں ٹھیک ٹھیک معلومات انسان کو دے دی گئیں۔ ’’اللہ ایسا ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے۔ پھر وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو جس طرح چاہتا ہے، آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔ پھر تم مینہ کو دیکھتے ہو کہ اس کے اندر سے نکلتا ہے۔ پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے۔ تو بس وہ خوشیاں کرنے لگتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الروم :48) آیئے، اب ان تینوں مراحل کو دیکھتے ہیں جو آیت میں بیان کیے گئے ہیں۔ پہلا مرحلہ: ’’اللہ ایسا ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے...‘‘سمندر کی سطح پر موجود پانی مستقل طور پر بخارات بن کر آسمان کی طرف اُٹھتا رہتا ہے۔ یہ بخارات، ہواؤں کے ذریعے بالائی فضا میں لے جائے جاتے ہیں۔ یہ بخارات جنہیں ’’ایرو سول‘‘ (Aerosols) کہتے ہیں، اپنے اردگرد موجود دیگر بخارات کو جمع کرکے بادل بناتے ہیں۔دوسرا مرحلہ: ’’پھر وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کو جس طرح چاہتا ہے، آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔‘‘بادل آبی بخارات سے بنتے ہیں اور نمک کی قلموں یا ہوا میں موجود گرد کے ذرات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ چونکہ ان بادلوں میں بارش کے قطرے بہت چھوٹے ہوتے ہیں 0.01)اور 0.02 ملی میٹر قطر کے درمیان)، اس لیے ہوا کے باعث یہ بادل پھیل جاتے ہیں اور اس طرح آسمان بادلوں سے بھر جاتا ہے۔تیسرا مرحلہ: ’’پھر تم مینہ کو دیکھتے ہو کہ اس کے اندر سے نکلتا ہے۔‘‘نمک کی قلموں اور گرد کے ذرات پر مشتمل آبی بخارات کثیف ہوکر بارش کے قطرے بناتے ہیں۔ لہٰذا یہ قطرے ہوا میں موجودگی کے وقت کے مقابلے میں بادلوں میں زیادہ بھاری ہوجاتے ہیں اور زمین پر برسات کی صورت میں گرنا شروع کردیتے ہیں۔ المختصر یہ کہ بارش کی تشکیل کا ہرمرحلہ قرآن مجید کی آیات میں بتایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ مراحل اسی ترتیب میں بتائے گئے ہیں جس ترتیب سے واقع ہوتے ہیں۔ دنیا میں دیگر بہت سے قدرتی مظاہر کی طرح بارش کے بارے میں قرآن پاک سب سے درست معلومات فراہم کرتا ہے اور یہ حقائق سائنس کی دریافت سے صدیوں پہلے لوگوں کو بتا دیے گئے تھے۔ ایک مردہ (بنجر) زمین میں جان ڈالنے سے متعلق قرآن میں کئی آیات ہیں جو بالخصوص اس موضوع کی ہماری توجہ کو مرکوز کرتی ہیں۔ ایک جگہ یہ بات کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے:’’اور وہ ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ (بارش کی امید دلاکر دل کو) خوش کردیتی ہیں اور ہم آسمان سے پانی برساتے ہیں جو پاک صاف کرنے کی چیز ہے تاکہ اس کے ذریعے سے مردہ زمین میں جان ڈال دیں اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سے چارپایوں اور بہت سے آدمیوں کو سیراب کردیں۔‘‘(سورۃ الفرقان۔ 49- 48) زمین کو پانی سے آباد کرنے کے ساتھ ساتھ، بارش زرخیزی اثرات بھی رکھتی ہے۔ دریاؤں سے بخارات بن کر اُڑنے والے بارش کے قطرے جو بادلوں میں بدل جاتے ہیں، ایسے مخصوص اجزا پر مشتمل ہوتے ہیں جو مردہ زمین کو زندگی عطا کرتے ہیں۔ یہ ’’زندگی دینے والے‘‘ قطرے ’’سطحی تناؤ والے قطرے‘‘(Serface Tension Drops) کہلاتے ہیں۔ یہ قطرے دریا کی بالائی سطح (ٹاپ لیول) پر بنتے ہیں جنہیں ماہرینِ حیاتیات ’’خردبینی تہہ‘‘ (Micro Layer) کہتے ہیں۔ یہ تہہ ایک ملی میٹر کے دسویں حصے سے کچھ پتلی ہوتی ہے اور اس میں دریائی نباتی و حیوانی آلودگی سے بچ رہنے والے بہت سے نامیاتی اجزا ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عناصر مثلاً فاسفورس، میگر نیشیم، پوٹاشیم اور بعض بھاری دھاتیں، مثلاً تانبا، جست، کوبالٹ اور سیسہ کہ جو دریائی پانی میں بہت کم ہوتے ہیں، علیحدہ ہوکر جمع ہوجاتے ہیں۔( یہ عناصر زمین کو زرخیز بنانے میں معاون ہوتے اور کھاد میں شامل ہوتے ہیں۔) کھاد سے معمور یہ قطرے ہواؤں کے ذریعے آسمانوں پر اوپر لے جائے جاتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد بارش کے قطروں میں بند یہ عناصر زمین پر بکھرا دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ زمین پر موجود بیجوں اور پودوں کو اپنی نمو کے لیے درکار مختلف معدنی نمک اور بنیادی عناصر بارش کے ان قطروں میں مل جاتے ہیں۔ یہ واقعہ قرآن پاک میں ایک اورمقام پر اس طرح ذکر کیا گیا ہے:’’اور ہم نے آسمان سے برکت (یعنی نفع) والا پانی برسایا پھر اس سے بہت سے باغ اُگائے اور کھیتی کا غلّہ۔‘‘ (سورۃ قٓ:9) نمکیات جو قطروں کے ساتھ گرتے ہیں، زرخیزی بڑھانے والے اجزا (کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم وغیرہ) کی چھوٹی مثالیں ہیں۔ دوسری جانب اس قسم کے ایروسولز میں جو بھاری دھاتیں پائی جاتی ہیں، پودوں کی نشونما اور زرخیزی بڑھانے والے دیگر عناصر ہیں۔ جنگلات بھی انہی دریائی ایروسولز پر پروان چڑھتے ہیں۔ اس طرح سے ہر سال زمین کی تمام سطح پر 150 ملین ٹن کھاد (زرخیزی بڑھانے والے اجزا اور عناصر) گرتی ہے۔ اگر کھاد کی فراہم کا یہ قدرتی نظام موجود نہ ہوتا تو زمین پر بہت کم سبزہ ہوتا اور ماحولیاتی توازن برباد ہوجاتا۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ یہ حقیقت جسے صرف آج کی جدید سائنس ہی دریافت کرسکی ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے صدیوں پہلے بتا دی تھی۔