ماؤنٹ ولسن کی رصدگاہ واقع کیلی فورنیا میں 1929ء میں امریکی ماہر فلکیات ایڈون ہبل نے فلکیات کی تاریخ میں ایک عظیم دریافت کی۔ جس وقت وہ ایک بڑی دوربین کے ذریعے ستاروں کا مشاہدہ کررہا تھا، اس نے دیکھا کہ ان سے نکلنے والی روشنی، طیف (Spectrum) کے سرخ سرے میں منتقل ہورہی ہے اور جو ستارہ زمین سے جتنا دُور ہے، یہ منتقلی اتنی ہی نمایاں ہے۔ سائنس کی دنیا میں یہ ایک تہلکہ خیز دریافت تھی، کیونکہ طبیعیات کے مسلمہ اصولوں کے مطابق اگر کسی روشنی کا طیف (Spectrum) نقطہ مشاہدہ (پوائنٹ آف آبزرویشن) کی جانب سفر کررہا ہو تو وہ بنفشی رنگ میں تبدیل ہوجائے گا، جبکہ روشنی کا یہ طیف نقطۂ مشاہدہ سے دور ہورہا ہو تو اس کی روشنی سرخ ہوجائے گی۔ ہبل نے اپنے مشاہدات میں دیکھا کہ روشنی سرخ ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستارے ہم سے مسلسل دُور ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے ہبل نے ایک اور اہم دریافت کی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ستارے اور کہکشائیں نہ صرف ہم سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی دُور ہوتے جارہے ہیں۔ اس مشاہدے سے کہ جہاں ہر شے دوسری شے سے دُور ہو رہی ہے، صرف یہی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کائنات مستقل پھیل رہی ہے۔ اس بات کو مزید اچھی طرح سمجھنے کے لیے آپ پھولتے غبارے کی سطح کا تصور کیجئے۔ بالکل اسی طرح جیسے پھولتے ہوئے غبارے کی سطح کے نقطے (پوائنٹس) ایک دوسرے سے دُور ہوتے چلے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح پھیلتی ہوئی کائنات میں خلا میں موجود اجسام (ستارے، سیارے وغیرہ) ایک دوسرے سے دُور ہورہے ہیں۔ نظری طور پر تو یہ بات اس سے پہلے ہی دریافت کی جاچکی تھی۔ چنانچہ معروف سائنس داں البرٹ آئن سٹائن نے یہ بات نظری طور پر ثابت کی تھی کہ کائنات ساکن (Static) نہیں ہوسکتی۔ تاہم اس نے اپنے نظرئیے کا پرچار نہیں کیا، کیونکہ اس وقت ساکن کائنات کا نمونہ (Static Universe Model) وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ بعد میں اس بات کو ہبل کے مشاہدات نے ثابت کردیا کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ لیکن کائنات کی تخلیق کے سلسلے میں کائنات کے پھیلاؤ کی کیا حیثیت ہے؟ کائنات کے پھیلاؤ کو ہم اگر پہلے کے وقت میں دیکھیں تو یہ ثابت ہوگا کہ کائنات ایک واحد نقطے (سنگل پوائنٹ) سے وجود میں آئی ہے۔ تخمینہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس ’’واحد نقطے‘‘ (جس میں تمام کائنات کا مادہ سمایا ہوا ہوگا) کا حجم صفر اور کثافت لامتناہی (Infinite) ہوگی۔ چنانچہ ایک دھماکے کے بعد اس کائنات کا آغاز ’’صفر حجم‘‘ (زیرو والیم) سے ہوا ہوگا۔ یہ عظیم دھماکا جس سے کائنات کا آغاز ہوا، ایک نظرئیے کے طور پر ’’بگ بینگ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ’’صفر حجم‘‘ ایک نظری وضاحت ہے جس کے ذریعے سائنس کسی شے کے ’’عدم وجود‘‘ کو ثابت کرتی ہے جو انسانی فہم سے ماورا ہے، لہٰذا ایک نقطے کو صفر حجم تسلیم کرکے ہی بات واضح کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’صفر حجم والے ایک نقطے‘‘ کا مطلب اس کا ’’عدم وجود‘‘ ہے۔ گویا کائنات ’’عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں آئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ ’’تخلیق‘‘ کی گئی ہے۔ بگ بینگ نظریہ بیان کرتا ہے کہ ابتدا میں تمام اجسام ایک ٹکڑا تھے اور پھر یہ علیحدہ علیحدہ ہوئے۔ وہ حقیقت جسے بگ بینگ نظرئیے نے ظاہر کیا، قرآن پاک میں 14 صدی پہلے واضح کردیا گیا کہ جب لوگوں کے پاس کائنات کے بارے میں بہت ہی محدود معلومات تھیں: ’’کیا ان کافروں کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ آسمان اور زمین (پہلے) بند تھے۔ پھر ہم نے دونوں کو (اپنی قدرت سے) کھول دیا اور ہم نے (بارش کے) پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا ہے۔ کیا (ان باتوں کو سن کر) بھی ایمان نہیں لاتے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء۔30) جیسا کہ درج بالا آیت میں بیان کیا گیا، کائنات کی ہر شے حتیٰ کہ ’’آسمان اور زمین‘‘ کی تخلیق بھی، ایک عظیم دھماکے کے نتیجے میں ایک واحد نقطے سے کی گئی اور موجودہ کائنات کو ایک دوسرے سے الگ کرکے مخصوص شکل دی گئی۔ جب ہم آیت میں درج بیان اور بگ بینگ نظرئیے کا موازنہ کرتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے سے مکمل ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ تاہم بگ بینگ نظریہ بیسویں صدی میں ایک سائنسی نظرئیے کے طور پر سامنے آیا۔ کائنات کا پھیلاؤ اس قرآنی دعوے کا ایک اہم ثبوت ہے جس کے مطابق کائنات ’’عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں لائی گئی۔ اگرچہ سائنس نے بیسویں دی میں جاکر اس حقیقت پرسے پردہ اُٹھایا، مگر اللہ نے قرآن پاک میں 1400 پہلے اس حقیقت کو بیان فرما دیا، ’’اور ہم نے آسمانوں کو (اپنی) قدرت سے بنایا اور ہم وسیع القدرت ہیں۔‘‘ (سورۃ الذاریات:47)