قرآن کی یہ آیت"یہ درجات میں مختلف ہونگے اور اللہ تعالی خوب دیکھتے ہیں-سورۃ آل عمران ۱۶۳" ایک بہت ہی اہم سچائی کی طرف ہماری توجہ مبذول کرواتی ہے۔کچھ لوگ ایمان کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔مگر جو ایمان والے ہیں انکے دلوں میں بھی اللہ کا خوف اور ایمان مختلف درجہ کا ہوتا ہے۔قرآن میں اللہ پاک ان لوگوں کا جو ایمان نہیں رکھتے حوالہ اس آیت میں دیتے ہیں "یہ گنوار کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے،تم ایمان تو نہیں لائے یوں کہو کہ ہم مطیع ہو گئے اور ابھی تک ایمان تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا-سورۃ الحجرات ۱۴" ایک دوسری آیت میں اللہ پاک ہمیں بتا تے ہیں کہ ایمان والوں میں کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں، کچھ درمیان میں اور کچھ ترقی کر کے آگے نکل جاتے ہیں۔"پھر یہ کتاب ہم نے ان لوگوں کے ہاتھ میں پہنچائی جنکو ہم نے اپنے تمام دنیا کے بندوں میں سے پسند فرمایا۔پھر بعض ان میں سے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض ان میں متوسط درجے کے ہیں اور بعض ان میں سے اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ بڑا فضل ہے-سورۃ فاطر ۳۲"
ان لوگوں میں جن کا قرآن میں ذکر ہے ایک گروہ ایسا بھی ہے:جو اپنے ایمان کو غلط کاموں کے ساتھ ملا دیتے ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ سچے مذہب کی اعلی برتری سمجھ میں آنے کے باوجود اوریہ بات جانتے ہوئے کہ آخرت میں سوائے قرآن پر عمل کرنے کے اور کوئی بچت کا راستہ نہیں،اسکے با وجود وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر غلط عقیدہ اور جہالت سے الگ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ایسے لوگ بظاہر ایمان کے ساتھ رہتے ہیں مگر اس لمحہ جب انکے ذاتی مفادات ایمان کے مقابلے میں آتے ہیں یا انکو کوئی پریشانی آتی ہے تو وہ بجائے قرآن والا رویّہ ظاہر کرنے کے ان لوگوں کا رویہ ظاہر کرتے ہیں جو ایمان نہیں رکھتے۔جب ایسے لوگوں کی بات ہوتی ہے تو صرف انہی لوگوں کا دماغ میں نہیں آنا چاھئے جو صاف طور پر مذہب کا انکار کرتے ہیں اور ایک غیر مذہب رویہ اختیار کرتے ہیں بلکہ یہاں پر جن لوگوں کی بات ہو رہی ہے وہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ قرآن کی بہت ساری باتوں پر عمل کرتے ہوئے اور ایک ایمان والے کی طرح رویہ ظاہر کرکے گزارتے ہیں۔البتہ کچھ خاص مواقع پر وہ یہ نہیں جانتے کہ قرآن کے مطابق وہ غلطی پر ہیں۔یا وہ صحیح طور پر اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔کچھ لوگ جو مسلمانوں کی طرح رہتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انکے کچھ عقائد اور اعمال قرآن کے ساتھ اختلاف نہیں رکھتے اور وہ یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ قرآن میں کس چیز سے روکا گیا ہے اور کیا گناہ ہے۔
مثال کے طور پر،کچھ لو گ یہ نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاھتے کو جذباتیت ایک ایسی خصلت ہے جو قرآن کی اخلاقی اقدار کے بلکل برعکس ہے۔یہ بات صاف طور پر قرآن کی بہت ساری آیت میں دیکھی جا سکتی ہے۔جیسا کہ ایک رشتہ دار کی موت پر مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ وہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو گیا بلکہ اسکے لیے ایک نا ختم ہونے ولی زندگی ا آغاز ہے۔ اور اگر مرنے والا ایک ایمان والے کا رشتہ دار ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور امید کرتا ہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔اسکے علاوہ موت ایک تقدیر کا حصہ ہے جو اللہ نے پہلے سے لکھی ہے۔جیسا کہ ہر چیز کی ایک وجہ ہے، موت بھی اللہ نے کسی وجہ سے بنائی ہے۔اسکے نتیجہ میں ایمان والا جانتا ہے کہ اسکے رشتہ دار کی موت میں بھی اللہ کی رحمت ہے اور وہ ایک اطمینان والا رویہ اختیار کرتا ہے۔مگر بہت سارے لوگ اس سچائی کو جانتے ہے بھی جہالت والا رویہ اختیار کرتے ہیں۔وہ بہت زیادہ جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔جو لوگ ایسے کردار کو قرآن کی اخلاقی اقدار کے مقابلے میں خامی یا کمزوری نہیں سمجھتے انکو اس چیز کو چھوڑنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔زندگی کے کچھ خاص لمحات میں وہ جاہلوں کی طرح رہتے ہیں۔وہ مشکلات اٹھاتے ہیں جو ایک ایمان والا نہیں اٹھاتا۔عام طور پر جاہلوں میں یہ رائج ہے۔اور ایمان والوں کے مقابلے میں زیادہ تر وہ اداس اور ناخوش رہتے ہیں۔
اسی وجہ سے، ہر وہ شخص جو یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتا ہےاسکو یہ دیکھنا چاھئے کہ آیا جس خوبصورت زندگی کا اللہ نے اس دنیا میں اور آخرت میں ایمان والوں سے وعدہ کیا ہےوہ اس علم کی روشنی میں اسکے پاس ہے یا نہیں۔ایک چھوٹے درجہ میں بھی اسکی زندگی میں اگر کوئی غم، پریشانی یا اداسی ہے تو اسکو یہ ایک تنبیہ کے طور پر لینا چاھئے اور اسکی فکر کرنی چاھئے۔ایک ایسے شخص کے لیے جو ساری زندگی تکلیف اور مصیبت اٹھاتاہے،اسکا حل بہت ہی سادہ ہے۔جیسا کہ ہمیں اس آیت میں بتایا گیا ہے "اللہ کو تمھارے ساتھ آسانی کرنا منظور ہے ،دشواری منظور نہیں۔۔۔۔۔سورۃ بقرہ ۱۸۵"
ہراس شخص کے لیے جو تھوڑا بہت بھی ظاہر میں یا چھپا ہوا جاہلانہ طرز عمل اختیار کرتا ہے، اسکے لیے حل بہت ہی سادہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایسا طرز عمل چھوڑدے اور قرآن کے مطابق زندگی گذارے۔ہر کوئی جو اللہ پر یقین رکھتا ہے اورہر ایمان والا جو قرآن کے مطابق زندگی گزارتا ہے اسکو چھاھئِیے کہ بہت ہی اخلاص کے ساتھ قرآن کو پڑھے اور ہر اس عمل اور اس سوچ سے اپنے آپ کو محفوظ کرے جو ان یمان والوں کے رویہ کے خلاف ہے جنکا قرآن میں ذکر ہے۔قرآن میں بتائی گئی سچائی کو صرف فرضی طور پر نا لے بلکہ اسکو اپنی زندگی میں عمل میں لائے اور اسکی مشق کرے اور اسکو محسوس کرے اور ہر وقت اسکا تجربہ کرے۔اسکو یہ بات نہیں بھولنی چاھئے کہ اللہ پاک ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اور وہ ہر شخص کے پوشیدہ احساسات سے واقف ہےاور اسکے چھپے ہوئے فریب سے بھی واقف ہے۔
ایک مسلمان کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کو ہی کافی نہیں سمجھنا چاھئیے اور اپنے اندر چھپی ہوئی ریا کاری کو غیر اہم یا ناقابلہ توجہ نہیں سمجھنا چاھئیے۔اسکو یہ بات سمجھنی چاھئیے کہ اللہ کے پاس غیر مخلص یا ریا کار کو سخت دکھ دینے والے عذاب کی طاقت ہے اور اسکو کسی بھی وقت حساب کتاب کے لیے حاظر کیا جائے گا اور پھر جو کچھ اسنے کیا ہوگا اسکے مطابق اسکے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ہر چیز جو اس دنیا میں پیش آتی ہے وہ اللہ نے پیدا کی ہے۔ہر جاندار اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور اسکے حکم کے مطابق عمل کرتا ہے۔مسلمانوں کو اطاعت گزاری اور بندگی کے ساتھ رہنا چاھئیے اور سچائی کو بھولنا نہیں چاھئیے اور زندگی کے ہر لمحہ میں یہ جاننا چاھئیے کہ یقینا اس میں کوئی بہتری ہے اور اللہ کی رحمت ہے۔
جب کوئی شخص اس سچائی کو پہچانتا ہے تو وہ ایک فرق دیکھے گا ایک خوبصورت زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔اس وقت وہ یہ بات جان لے گا کہ جسکو وہ خوشی سمجھتا رہا تو اس نے کبھی اللہ کی رحمت کاصحیح مذہ اور ذائقعہ چکھا ہی نہیں اور وہ کتنی عام اور معمولی سی چیزیں ہیں جنکو لوگ سمجھتے ہیں کہ انکو خوشیاں دیتی ہیں جب ایک حقیقی خوشی کے ساتھ انکا موازنہ کیا جائے۔وہ یہ محسوس کرے گا کہ ہر کھانہ جو وہ کھاتا ہے اور ہر خوبصورت جگہ جو دیکھتا ہے ہر سانس جو وہ لیتا ہے اسکو ایک عظیم مسرت اور خوشی دیتا ہے جسکا اس نے کبھی سوچا بھی نا تھا۔محبت کرنا،محبوب بننا، پختہ اخلاق کا اظہار،لوگوں میں نفیس خوبصورتی دیکھنا، ہنسنا ہنسانا اورخوشی محسوس کرنا، دوستی اور گفتگو اسکو ایک نئے مزے کی طرف لے جائیگی۔اسکی زندگی اور اسکے دنیاوی معاملات ایک فہم میں اسکو جنت کی زندگی کی یاد دلاتے ہیں۔
اس موقع پر البتہ ایک اور اہم مسئلہ کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔جب ہم ایک خوبصورت زندگی کی بات کرتے ہیں تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دنیا میں جو ایک امتحان کی جگہ ہے لوگوں کو مشکلات یا پریشانیاں نہیں آینگی۔ہر شخص مرنےسے پہلے مختلف حالات اور واقعات سے آزما یا جائے گا۔جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن کی آیات میں ہمیں بتایا ہے کہ ہر شخص مشکلات اور پریشانیاں دیکھے گا۔ کسی کو بھوک سے آزمایا جائیگا،کسی کو ڈر اور خوف سے اور کسی کو جائیداد اور پیاروں کے نقصان سے۔مگر یہ چیزیں ذرہ برابر بھی ایک ایمان والے کے دل میں جو خوشی اور اطمینان ہے اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔کیونکہ ایمان والا تقدیر پر راضی رہتا ہے،ہر واقعہ میں فائدہ اور رحمت دیکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے اگرچہ وہ ذہنی طور پر اسکا ادارک نہیں کرسکتا اور اسمیں چھپی ہوئی خوبصورتی کو نہیں دیکھ سکتا۔واقعات کے بارے میں مثبت انداز میں سوچنا اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا جو علیم ہے،حقیقی اور ناختم ہونے والی خوشی اور مسرت کا سبب بنتا ہے۔
یہ کتاب لوگوں کو سیدھا راستہ دیکھاتی ہے، دلی خوشی اور اطمینان جو ایک مومن تجربہ کرتا ہے، اللہ کی رحمت ہے ان ماننے والوں کے لیے جو حقیقی ایمان رکھتے ہیں۔
اللہ پاک اس معاملے کو مومن کے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں ایک خوشخبر ی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
"یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نا کوئی اندیشہ ہے اور نا وہ غمگین ہوتے ہیں۔وہ اللہ کے دوست ہیں جو ایمان لائے اور پرہیز رکھتے ہیں۔انکے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے۔اللہ کی باتوں میں کچھ فرق نہیں ہوا کرتااور بے شک یہ بڑی کامیابی ہے-سورۃ یونس ۶۲-۶۴"
ایک دوسری آیت میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ حفاظت ان ماننے والوں کے لیے ہے جو حقیقی ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو غلط چیزوں کے ساتھ ملاتے نہیں ہیں۔
"جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے ہیں ایسوں ہی کے لیے امن ہےاور وہ ہی سیدھی راہ پر چل رہے ہیں-سورۃ الانعام ۸۳"