میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جاتاہوں،اگراُن پرثابت قدم رہوگے توگمراہی کبھی تمہارے قریب بھٹکنے نہ پائے گی۔ایک کتاب اللہ اوردوسری میری سنت۔ (الحاکم) اللہ تعالیٰ آیت کریمہ میں فرماتاہے : الیَومَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ أتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الإسْلاَمَ دِیْناً o (سورۂ مائدہ:۵؍۳) آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیااور تم پراپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطورِ) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسندکرلیا۔ اسلام آخری الہامی دین ہے،اورمحمد عربی ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔اللہ کے رسول اورختم المرسلین ہیں۔(احزاب: ۴۰) شفقت،جنت اوررضاے الٰہی کے حصول کی خاطر اہل ایمان کوقرآن کی روشنی میں اخلاقی اقدار سیکھ کرانھیں برتناچاہیے تاکہ ممنوع ومباح اورحلال وحرام کے درمیان تمیزکرنے کاان میں شعوربیدارہو۔ المختصر خوشنودیِ الٰہی کا باعث بننے والی جملہ تفصیلات پرانھیں نورِ قرآن کے ذریعہ عبور حاصل کرلیناچاہیے ۔اہل ایمان کے لیے مالک کون ومکاں کے فضل فراواں کی ایک اورسوغات‘ سنت نبوی ہے۔ بلاشبہہ نبی کریم ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی ذات ستودہ صفات ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے سراپا اخلاق وکرداربناکرعالم انسانیت کے لیے مبعوث فرمایاہے ۔ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَ الْیَومَ الآخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا (سورۂ احزاب:۳۳؍۲۱) بلاشبہہ تمہارے لیے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ(حیات)ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ(سے ملنے)کی اور یوم آخرت کی امیدرکھتاہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتاہے۔ رسولِ کریم۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ ایمان وعمل ،تقویٰ وطہارت اور علم واخلاق بہراعتبار جملہ اہل ایمان کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔آپ صبروتحمل ،تعلق باللہ ،حوصلہ ،اخلاص ، تقرب الٰہی ،عدل وانصاف،شفقت ومروت، محبت ومودت ، دوراندیشی جیسی اعلیٰ صفات سے مزین تھے،جس کے چرچے زبان زدِ خاص وعام ہیں۔ جملہ اہل ایمان ان خصائص وامتیازات کو اپنی زندگی میں رچانے بسانے کی کوشش کرتے ہیں۔رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے کرداروعمل کو اپنانا قرآن کے ضابطہ اخلاق کو اپنانے کے مرادف ہے۔ان وجوہات کی بناپر حضور اقدس۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے تمام اقوال ، فیصلے ،سفارشات،نصیحتیں اورحیات طیبہ بالفاظِ دیگرسنت نبوی ان تمام حضرات کے لیے قابل تقلید نمونہ ہے جوقرآن سمجھنے اوراس کے سانچے میں ڈھلی زندگی گزارنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اتباعِ رسول اور آپ کے نقش قدم پرجادہ پیمائی کی اہمیت کومتعددآیتوں میں بیان فرمایاہے، ان میں سے ملاحظہ فرمائیں : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَا أرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاًO (سورۂ نساء:۴؍۸۰) جس نے رسول کاحکم مانابیشک اس نے اللہ(ہی) کاحکم مانا، اور جس نے روگردانی کی توہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ایک اہم نشانی اطاعت نبوی ہے۔وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیاہے ۔اگرکوئی شخص مشیت الٰہی سے جادۂ حق پر گامزن ہوناچاہے تواس کوپیغمبرکی اطاعت کرکے ان کے بتائے ہوئے طریقے پرجادہ پیماہوناضروری ہے۔پروردگارِ عالم درج ذیل آیت میں اس حقیقت کویوں بیان فرماتاہے : کَذَالِکَ أرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُولاً مِّنْکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ o (سورۂ بقرہ:۲؍۱۵۱) اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمھیں میں سے (اپنا)رسول بھیجاجو تم پرہماری آیتیں تلاوت فرماتاہے اور تمھیں (نفساًوقلباً)پاک صاف کرتاہے اور تمھیں کتاب کی تعلیم دیتاہے اور حکمت ودانائی سکھاتاہے اور تمھیں وہ (اسرارِمعرفت وحقیقت)سکھاتاہے جو تم نہ جانتے تھے۔ علماے کرام اس بات پرمتفق ہیں کہ اس آیت میں لفظ’’حکمت‘‘ سے مراد سنت نبوی ہے۔ اہل ایمان کوحکم ہوتاہے کہ وہ اختلافی مسائل میں قرآن اور سنت نبوی کواپناحکم بنائیں : فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَ یُؤمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِي أنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا o (سورۂ نساء:۴؍ ۶۵) پس(اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم!یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہراختلاف میں آپ کو حاکم نہ بنالیں پھر اس فیصلہ سے جوآپ صادر فرمادیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو)بخوشی پوری فرماں برداری کے ساتھ قبول نہ کرلیں۔ اس آیت مبارکہ میں پورے طورپرواضح فرمادیاگیاہے کہ رسول مکرم۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ کی سنتوں پرعمل پیراہونا اہل ایمان کے فرائض میں داخل ہے،کیوں کہ سنت ‘مفاہیم قرآنی کی تشریح وتوضیح ہے۔لہٰذاکسی مسلمان مردوعورت کو سنت نبوی مستردکرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔قرآن کے اندریہ تعلیم وہدایت موجودہے : وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لاَ مُؤمِنَۃٍ إذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُولُہُ أمْرًا أنْ یَّکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أمْرِہِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِینًا o (سورۂ احزاب:۳۳؍۳۶) اور نہ کسی مومن مردکو(یہ)حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یاحکم)فرمادیں تو ان کے لیے اپنے(اس)کام میں(کرنے یانہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی نافرمانی کرتاہے تو وہ یقیناًکھلی گمراہی میں بھٹک گیا۔ مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتہُوا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ إنَّ اللّٰہَ شَدِیدُ العِقَابِo (سورۂ حشر:۵۹؍۷) اور جو کچھ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) تمھیں عطافرمائیں سو اسے لے لیا کرو اور جس سے تمھیں منع فرمائیں سو ( اس سے) رُک جایاکرو،اور اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ سخت عذاب دینے والاہے۔ إنَّمَا کَانَ قَولَ الْمُؤمِنِیْنَ إذَا دُعُوا إلَی اللّٰہِ وَ رَسُولِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أنْ یَّقُولُوا سَمِعْنَا وَ أطَعْنَا وَ أولٰءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ o (سورۂ نور:۲۴؍۵۱) ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا،اور ہم(سراپا)اطاعت پیراہوگئے،اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی اطاعت اور آپ کی ہدایات پر عمل اس بات کی علامت ہے کہ بندہ تہِ دل سے معمولاتِ دین پرمصروفِ عمل ہے۔اگر ایک شخص اپنارشتہ عقیدت‘ رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی سنتوں کے ساتھ مربوط کرکے آپ کی جاری کردہ ہدایات کے بارے میں اپنے دل کے کسی گوشہ میں کسی قسم کاکوئی شبہہ محسوس نہ کرے تو یہ اس بات کی بین دلیل ہے کہ وہ درحقیقت احکام الٰہی پرکاربندہے۔بالفاظِ دیگر : وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ o إنْ ہُوَ إلاَّ وَحْيٌ یُّوحٰی o (سورۂ نجم: ۵۳؍۳تا۴) اور وہ (اپنی )خواہش سے کلام نہیں کرتے، ان کا ارشاد سراسروحی ہوتاہے جو انھیں کی جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح فرمادیاکہ رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ کاکہاوحی الٰہی ہوتاہے،اور آپ کے ہرلفظ کی قدرتی طورپرحفاظت ہوتی ہے۔بلاشبہہ ایک حدیث پاک میں نبی کریم ۔علیہ السلام ۔نے اپنے نقش قدم پرچلنے والوں کے مقام ومرتبہ کومتعین فرمایاہے ،خاص طورپرہماری پیش آمدہ نسلوں کواس مسئلہ پربہت ہی حساس ہوناچاہیے۔ میرے دنیاسے پردہ فرماجانے کے بعد تم بہت سے اختلافات اور ناچاکیاں دیکھوگے(ایسے نازک موقع پر) تم میری اور خلفاے راشدین کی سنت پرثابت قدمی سے گامزن ہوجاؤ،اورانھیں مضبوطی کے ساتھ دانتوں سے چمٹائے رکھو،نیز نئی چیزیں ایجاد کرنے سے بچوکیوں کہ ہرنئی چیزبدعت ہوتی ہے اوربدعت گمراہی ہے۔ (سنن ابوداؤد ، حدیث :۳۹۹۱ بروایت عرباض بن ساریہ) بہترین کلام‘کلامِ الٰہی ہے،اوربہترین ہدایت‘ہدایت محمدی۔ (سنن ابن ماجہ،مقدمہ:۷حدیث:۴۴) مزید برآں یہ بات بھی حاشیہ ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ سنت نبوی اورمنہاجِ رسول ہی وہ سرمایہ ہے جس سے اہل ایمان حیات جاودانی سے شادکام ہوسکیں گے ۔ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے : یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اسْتَجِیْبُوا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُولِ إذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَ اعْلَمُوا أنَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ وَ أنَّہُ إلَیْہِ تُحْشَرُونَ o (سورۂ انفال:۸؍ ۲۴) اے ایمان والو!جب(بھی) رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)تمھیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمھیں (جاودانی) زندگی عطاکرتاہوتواللہ اوررسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کو فرماں برداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے(فوراً) حاضر ہوجایاکرو،اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان(شانِ قربت خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتاہے اور یہ کہ تم سب(بالآخر)اسی کی طرف جمع کیے جاؤگے۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ جادۂ رسول پرقائم ودائم رہیں،اور دائرۂ سنت میں رہ کر اس یقین کے ساتھ زندگی گزاریں کہ سنت ہی حیات جاوداں کاوسیلہ ہے۔اگرکوئی بہشت الٰہی اوررحمت خداوندی کاآرزومندہے تواسے اپنے قصرحیات کی بنیادسنت نبوی پراستوار کرنی چاہیے۔قرآن اور اسوۂ رسول کو اپناخضراہ بنالینے والاہی درحقیقت راہِ راست پرہے ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کاذکرخیرفرمایاہے جواپنی عمارت کی ٹھوس بنیادیں اسی نہج پررکھتے ہیں : أَ فَمَنْ أسَّسَ بُنْیَانَہُ عَلٰی تَقْوَی مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضْوَانٍ خَیْرٌ أمْ مَّنْ أسَّسَ بُنْیَانُہُ عَلٰی شَفَا جُرُفٍ ہَارٍ فَانْہَارَ بِہٖ فِي نَارِ جَہَنَّمَ وَ اللّٰہُ لاَ یَہْدِي الْقَومَ الظَّالِمِیْنَ o (سورۂ توبہ: ۹؍۱۰۹) بھلا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاداللہ سے ڈرنے اور (اس کی )رضاوخوشنودی پررکھی، بہترہے یا وہ شخص جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایسے گڑھے کے کنارے پر رکھی جوگرنے والاہے۔سو وہ (عمارت) اس معیار کے ساتھ ہی آتش دوزخ میں گرپڑی،اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔ تقوئ الٰہی کی اساس پراپنے عمل کی عمارت تعمیرکرنے والا اور رضاے خداوندی کے حصول میں سرگرداں شخص ہی رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ کاسچافرماں برداراور ایمان وعمل میں آپ کاحقیقی پیروکارکہے جانے کے لائق ہے ۔ رسول اکرم ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی راہ چلنا اسی وقت ممکن ہوسکتاہے جب انسان قرآن سے اپنارابطہ مستحکم کرکے پورے طور پر سنت مقدسہ پرقائم ودائم ہوجائے۔