اب جبکہ سائنس نے ارتقاء کے نظریہ کی دھجیاں بکھیر دی ہیں،جسکے مطابق زندگی اتفاقیہ از خود وجود میں آگئی ہے، اور دوسری طرف اس نے یہ واضح کر دیا ہے کہ فطرت میں ایک کامل تخلیق موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہی تمام جانداروں کو وجود میں لانے کا سبب بنی. نظریہ ارتقاء اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ زندگی محض اتفاق کا نتیجہ ہے، لیکن تمام سائنسی شواھد اسے غلط ثابت کرتے ہیں اور زندگی کی تخلیق کا منصوبہ اس بات سے بالا ہے کہ اسکی محض ایک اتفاق کے زریعے وضاحت کی جائے۔ زندگی کے اتفاق سے وجود میں آنے کا نظریہ انیسویں صدی میں سامنے آیاجب زندگی کو بہت سادا سمجھا جاتا تھا۔ پھر یہ عقیدہ بیسویں صدی میں کچھ نظریاتی مقاصد کے لئے لایا گیا۔ آج جبکہ سائنسی برادری اس دعوے کو نامعقول سمجھتی ہے اور سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ زندگی ایک عظیم ترین خالق کا عمل ہے۔ چندرا وکرماسنگھے جو کئی سالوں تک اتفاق کے نظریئے کی تائید کرتے ر ہے وہ اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہیں جسکا سامنا انکو سائنسدان ہونے کے ناطے کرنا پڑا۔ ’’سائنسدان ہونے کی تربیت کے ابتدائی د ورسے ہی یہ بات مجھے ذہن نشین کروا دی گئی تھی کہ سائنس کسی بھی قسم کی خود سے گھڑی ہوئی چیز کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس خیال کو صرف دکھ سے جھٹک دینا پڑتا ہے۔ اس وقت میرے پاس اس نظریئے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی منطقی استدلال نہیں جو خدا کے ہونے پر بحث کرتا ہے۔ہم نے اپنا ذہن ہمیشہ کشادہ رکھا اب ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ زندگی کا منطقی جواب صرف تخلیق ہی ہو سکتا ہے نہ کہ محض حادثاتی طور پر چیزوں کا ترتیب پا جانا۔‘‘ اس صریح سچائی کو جاننے کے لئے کسی کو بائیو کیمسٹری کی لیبارٹری میں جانے یا Fossils دیکھنے کی ضرورت نہیں۔کوئی بھی اپنے ضمیر اور ادراک کا استعمال کر کے دنیا میں کہیں بھی تخلیق کی حقیقت کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ وہ باآسانی اپنے خالق کی لامحدود دانائی، علم اور طاقت کا اندازہ کر سکتا ہے اگر وہ صرف اس بات پر ہی غور کر لے کہ وہ کیسے نشوونما پا کر ایک ایسا انسان بن گیا جو ان سطور کو پڑھ سکے اور سمجھ سکے اگرچہ کہ آغاز میں وہ صرف ایک بوند تھا۔ رحم مادر میں انسان کی تخلیق بذات خود ایک معجزہ ہے کہ کیسے نطفہ اور بیضہ کے باہم ملاپ سے ایک زندہ خلیہ بنتا ہے، یہ خلیہ اپنی تعداد بڑھاتا ہے ، پھر ان بڑھتے ہوئے خلیوں میں نامعلوم اور خفیہ طریقے سے تفریق ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ مخصوص طریقے سے ترتیب پا کر ہڈیاں، آنکھیں، دل ، خون کی شریانیں یا جلد بنا لیتے ہیں۔ اس بے عیب عمل کے اختتام پرایک تنہا خلیہ ایک انسان کی شکل ا.اختیا ر کر چکا ہو چکا ہوتا ہے۔اس تخلیق کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان سے مخاطب ہے۔ ’’اے انسان! تجھے رب کریم کے بارے میں کس شے نے دھوکے میں رکھا ہے۔ اس نے تجھے پید ا کیا ہے پھر برابر کر کے متوازن بنایا ہے، اس نے جس صورت میں چاھا تیرے اجزا کی ترکیب کی ہے۔‘‘(سورۃالانفطار . 6-8 ) اس دنیا میں کوئی بھی محض اتفاقیہ نہیں وجود میں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ جو تمام جہانوں کا آقا ہے اسی نے یہ کائنات اور تمام انسان تخلیق کئے۔اللہ تعا لیٰ اپنی تخلیقی قوتوں کی وضاحت کرتے ہوئے قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے ’’اے انسانو!تمھارے لئے ایک مثال بیان کی گئی ہے لہذا اسے غور سے سنو۔ یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کر سکتے۔ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے کہ طالب اور مطلوب دونوں ہی کمزور ہیں۔ افسوس کہ ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں پہچانی اور بیشک اللہ بڑا قوت والا اور سب پر غالب ہے۔‘‘ ( سورۃالحج۔ 73-74).