تقدیر کے کمالات اور ہر چیز میں اچھائی کو سمجھنے میں ناکامی
ucgen

تقدیر کے کمالات اور ہر چیز میں اچھائی کو سمجھنے میں ناکامی

1388

قرآن کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے-"---ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور دراصل وہی تمحارے لیے بھلی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو حالانکہ وہ تمھا رے لیے بری ہو، اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ سورۃ بقرۃ -۲۱۶" - زندگی کے دوران لوگوں کو غیر متوقع، نا پسندیدہ اور نا مناسب حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ ہر واقع میں ایک خاص محل و قوع انکے امتحان کے لیے تخلیق کیا گیا ہے، جیسا کہ ہمیں اس آیت میں بتایا گیا –"جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے----- سورۃ الملک-۲" حالات چاہے کتنے ہی نا مناسب اور منفی نظر آئیں لوگوں کو چاہئے کہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کریں اور اس بات سے آگاہ رہیں کہ انکے پرور دگار نے پہلے سے ہر واقع میں انکے لیے اچھائی لکھ دی ہے۔ ایک ایمان والا دل میں جو حفاظت اور اطاعت محسوس کرتا ہے وہ اسکے اخلاق کو قابو کرتا ہے۔یہی وہ اصلاحی عمل ہے جس کی وجہ سے مومن اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔

 



اللہ پر بھروسہ کرنا اللہ کی طرف سے ایک رحمت ہے اور لوگوں کے لیے عظیم تسّلی بخش ہے۔ لوگ جو اللہ کی بتائی ہوئی سچائی پر بھروسہ کرتے ہیں جیسا کہ آیت میں ہے" اور تمہیں جو کچھ اس دن پہنچا جس دن دو جماعتیں مڈ بھیڑ ہوئی تھی، وہ سب اللہ کے حکم سے تھا--- سورۃ آل عمران ۱۶۶" مکمل طور پر اللہ کی حکمت کے آگے جھک جاتے ہیں چناچہ وہ زندگی کے ہر لمحے میں خوبصورتی اور رحمت دیکھتے ہیں اور اپنے اخلاق کے ذریعے اللہ پربھروسہ اور یقین کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس اخلاق کے بدلے میں، اللہ پاک انکے راستے آسان کرتا ہے جیسا کہ ہمیں اس آیت میں بتایا گیا ہے۔"----اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اسکے ہر کام میں آسانی کر دیگا-سورۃ الطلاق-۴"۔جیسا کہ اللہ ہمیں اس آیت میں بتاتا ہے۔"وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں اور اللہ دانا با حکمت ہے-سورۃ الفتح -۴" انکے اللہ کے آگے جھک جانے کے بدلے میں، اللہ مومنوں کے دلوں کو پر سکون کرتا ہے اور انکو حفاظت اور اطمینان کا احساس دلاتا ہے۔

قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک مومن اپنی اطاعت کا اظہار کرتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ اس زمین پر پیدا ہونے والے ہر اچھے اور برے واقع کو اللہ انکے لیے با برکت اور سازگار کریگا:

"آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالٰی پر بھروسہ نہ کریں جبکہ اسنے ہمیں راہیں سجھائی ہیں۔واللہ جو تکلیفیں تم ہمیں دو گے ہم ان پر صبر ہی کریں گے۔توکلّ کرنے والوں کو یہی لائق ہے کہ اللہ پر توکلّ کریں-سورۃ ابراھیم-۱۲":

ایک انسان جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اسکو کوئی غم یا تکلیف نہیں ہوتی- یہ اللہ کا وعدہ ہے اسکے پر خلوص ماننے والوں سے۔قرآن ہمیں بتاتا ہے:

" بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر جمے رہے تو ان پر نا تو کوئی خوف ہو گا اور نا وہ غمگین ہونگے"

 



جیسا کہ ہمیں پتا چلتا ہے، اللہ کے آگے جھک جانا ، اگر اللہ چاہے، ہر چیز کو آسان کرتا ہے ۔ اللہ کو نا ماننا ، انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اضافی مشکلات، پریشانی اور غم کا باعث بنتا ہے۔ہر کام مشکل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ نا قابل حل ہو جاتا ہے۔ان لوگوں کے لیے جو اللہ کے آگے نہیں جھکتے، ایک بہت ہی عام سا اور معمولی سا کام جسکا حل بہت ہی آسان ہوتا ہے انکی نظروں میں بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے۔یہاں تک کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ اللہ پر یقین کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تقدیر کیسے حیران کن سانچے میں بنائی گئی ہے یا وہ اس خیال میں پھنس جاتے ہیں کہ واقعات اللہ کی دسترس سے باہر ہیں [یقینا ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے]۔اسی وجہ سے وہ انکے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو مثبت انداز میں نہیں دیکھ سکتے اور واقع میں انکو اچھائی نظر نہیں آتی۔وہ ہر وقت ایک خوف اور پریشانی میں رہتے ہیں۔اللہ پر بھروسہ نا کرنے کی وجہ سے منفی امکانات کی سوچ سے وہ ایک تناوُ کا شکار رہتے ہیں جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والا ہوتا۔ اسی طرح جو معاملات اور واقعات بلکل صحیح چل رہے ہوتے ہیں، انمیں انھیں بیان کرنے کے لیے نقائص نظر آجا تے ہیں۔

اسکے علاوہ ، کیونکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہر واقعہ جو وہ تجربہ کرتے ہیں اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، وہ اپنے اس یقن کی وجہ سے کہ ہر مشکل اور پریشانی انکو خود ہی حل کرنی ہے وہ ایک خوفناک مصیبت میں پھنس جاتے ہیں۔حقیقت میں، چاہے وہ کچھ بھی کرلیں، اگر اللہ نا چاہے تو کسی چیز کا بھی حل نا ممکن ہے۔ اسی وجہ سے ایک اطاعت گذار بندہ ہر حل کے لیے اقدام کریگا اورہر ممکن کوشش کرے گا جو وہ کرسکتا ہے مگر چونکہ وہ جانتا ہے کہ نتیجہ اللہ ہی لائیں گے لہذا وہ ہر چیز بہت ہی اطمینان اور آرام سے کرتا ہے۔

وہ لوگ جو اللہ کے آگے نہیں جھکتے روز مرہ زندگی میں تواتر مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔مثال کے طور پر، آپ نے اکثر ایک ایسے شخص جسکی کام پر جاتے ہوئے سواری چھوٹ جائے، غصہ سے بھرے الفاظ اور شدت کا مشاہدہ کیا ہوگا۔وہ کئی لمحہ تک اپنے آپکو سنبھال نہیں سکتا۔اگرچہ اسکو کوئی اور راستہ مل جائے وقت پر کام پر پہنچنے کا پھر بھی وہ اس واقع کی وجہ سے سارا دن ذہنی طور پر پریشان رہتا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ کہ اس دن ہر چیز غلط ہوگی جسکی شروعا ت بری ہو وہ اپنے آپ کو خود اذیت اورتناوُ میں مبتلا کرتا ہے۔اسکے بجائے اگر وہ ممکنہ فائدہ پر غور کرتا جو اللہ نے اس واقعہ میں رکھے ہو سکتے ہیں تو اسکو اتنی مشکلات پیش نا آتیں اور ان حالات میں بھی جب ہر چیز الٹی ہوتی نظر آئے وہ اللہ کی خوشنودی کی امید کریگا کیونکہ اسنے اللہ کے آگے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے۔

اسی طرح ایک شخص جو ایکسیڈنٹ میں ذخمی ہو گیا ہو وہ اپنے آپ کو ان فکرات سے نہیں بچا سکتا جو اللہ پر بھروسہ نا کرنے کی وجہ سے اس پر آتی ہیں۔کیونکہ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے اسکے لیے یہ واقع پیدا کیا، وہ گاڑی کے چلانے والے میں خرابی دیکھتا ہے یا اپنے آپ میں خرابی دیکھتا ہے اور غصہ ہو جاتا ہے۔حقیقت میں اسکی ساری فکرات بے بنیاد ہوتی ہیں۔ اس طرح کے حالات میں، جو کچھ ہوا اس کے ایک مثبت رخ کے بارے میں سوچنا اس شخص کو اس نا قبل مصالحت فکر سے باہر نکالنے کے لیے کافی ہے

 



مثال کے طور پر، غور کیا جائے کہ زخمی ہونے کے بجائے موت بھی واقع ہو سکتی تھی اور یہ وجہ ہے اللہ کے شکرگزار ہونے کی اور اطمینان اور مسرت کی۔ یا مریض کو یہ سوچتے ہوئے خوشی محصوص کرنی چاہئیے کہ ان زخموں نے اسکو موت اور آخرت کی یا د دلائی اور اس چیز نے اسکو اللہ سے قریب کیا اور اللہ کا خوف پیدا ہوا اور اسکی عجب اور تکبر سے حفاظت کی اور اسکی اطاعت اللہ کو اس سے خوش کریگی۔اور یہ اسکو آخرت میں بہت سی نعمتوں اور فائدوں سے نوازیگی۔چناچہ جو شخص اللہ پر اور حساب کتاب والے دن پر مکمل یقین کرتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر واقع میں اللہ نے رحمت اور فائدہ رکھا ہے۔

لوگ جو مکمل یقین نہیں رکھتے وہ عام طور پر ناشکری والا رویّہ اختیار کرتے ہیں۔ اور اسکی وجہ سے، ان لوگوں کے مقابلے میں جو اللہ پر مکمل یقین رکھتے ہیں، انکی زندگیاں مشکلات اور غموں سے بھری ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ اگر اللہ کے اطاعت گذار بن جائیں جیسا کہ اس آیت میں سکھایا گیا ہے " وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمھارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں تم ان سے خوف کھاوُ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے" تو انکے سارے غم اور تکلیفیں ختم ہو جائیں۔


بانٹیں
logo
logo
logo
logo
logo